امریکی، برطانوی اور فرانسیسی بحریہ کے مشرق وسطی میں مقیم کمانڈروں نے ایک امریکی جنگی جہاز پر آبنائے ہرمز کا سفر کیا۔
یہ ایران کی جانب سے دو آئل ٹینکرز کو قبضے میں لینے کے بعد اہم آبی گزرگاہ کو کھلا رکھنے کے لیے ان کے متفقہ نقطہ نظر کا اظہار تھا۔
پانچ برس قبل امریکہ کے یکطرفہ انخلا کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد سے خلیج میں تنا ﺅہے۔
امریکی میڈیارپورٹس کے مطابق بحری جہاز یو ایس ایس پال ہیملٹن پر سوار ہوکر تینوں بحریہ کے سربراہوں نے ناقابل یقین حد تک نایاب مشترکہ سفر کیا۔
اس موقع پر دیکھا گیا کہ ایک مقام پر ایرانی پاسداران انقلاب کی تین تیز کشتیاں جہاز کے قریب پہنچی تھیں۔
گارڈز اپنے ڈیک پر بے نقاب مشین گنوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ پال ہیملٹن پر سوار ملاح بھی بھاری بھرکم مشین گنوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ بحری جہاز کی تصاویر اور یڈیو بنائی گئیں۔
اس موقع پر اے پی کا ایک صحافی بھی اتحادی بحریہ کے کمانڈروں کے ساتھ تھا۔ ایرانی گارڈ نے پال ہیملٹن اور گزرنے والے برطانوی فریگیٹ ایچ ایم ایس لنکاسٹر دونوں سے اپنا فاصلہ برقرار رکھا۔
ان کی موجودگی نے ظاہر کیا کہ آبنائے ہرمز میں جہازوں کا گزرنا کتنا کشیدہ ہو سکتا ہے۔ آبنائے ہرمز خلیج کا تنگ منہ ہے جہاں سے عالمی تیل کی سپلائی کا پانچواں حصہ گزرتا ہے۔
یاد رہے ایران نے گزشتہ دو سالوں میں 15 بحری جہازوں پر قبضہ یا حملہ کیا ہے۔
امریکی بحریہ کے مشرق وسطی میں قائم 5ویں فلیٹ کی نگرانی کرنے والے وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے بتایا کہ جہاز رانی کی صنعت اس بات کو ذہن میں رکھتی ہے کہ خطے میں سکیورٹی کی حالت کیسی ہے۔ ہمارے پاس اس اثر و رسوخ کو مثبت طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت ہے اور اب ہم یہی کر رہے ہیں۔
ایران کے گارڈ کی کشتیاں سان ڈیاگو سے باہر واقع پال ہیملٹن سے ایک ہزار گز یا 915 میٹر کے فاصلے پر آئی تھیں۔
کوپر نے کہا کہ پال ہیملٹن کا مشترکہ سفر اس دھکے کے ایک حصے کی نمائندگی کرتا ہے جس کا مقصد زیادہ اتحادی جہازوں کو آبنائے ہرمز سے مستقل طور پر گزرنا ہے۔
تجارت کا وہ حجم جو آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے دنیا کی معیشت کے لیے اہم ہے۔