کینیڈا میں ہاؤس آف کامنز کہلانے والے پارلیمانی ایوان زیریں نے متفقہ طور پر ایک ایسی قرارداد منظور کر لی ہے، جس کے مطابق چین اپنے ہاں ایغور اقلیتی مسلمانوں کے ساتھ رویوں کی صورت میں ان کی ’نسل کشی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔
یہ قرارداد اپوزیشن کی قدامت پسند جماعت کے ارکان نے پیش کی اور اس کا مقصد ملکی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ چین میں بیجنگ حکومت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص کر ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ جابرانہ رویوں کے حوالے سے کینیڈا کی طرف سے زیادہ سخت موقف اختیار کریں۔
کینیڈین ہاؤس آف کامنز کی طرف سے منظور کردہ اس قرارداد کی حیثیت علامتی ہے کیونکہ ٹروڈو حکومت اس میں کیے گئے مطالبات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوگی۔
چین کی طرف سے اس کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیتی آبادی کے ساتھ کیے جانے والے ناروا برتاؤ پر بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی شدید تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیمیں عرصے سے یہ الزام لگاتی آ رہی ہیں کہ چینی حکام نے سنکیانگ میں تقریباﹰ ایک ملین تک ایغور مسلمانوں کو ‘نظربندی کیمپوں کے ایک پورے نیٹ ورک میں بند رکھنے‘ کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، وہ ان شہریوں کے بنیادی، سماجی اور شہری حقوق کی صریحاﹰ خلاف ورزی ہے۔
ایسی رپورٹیں بھی ملتی رہی ہیں کہ ان کیمپوں میں ایغور شہریوں کی نس بندی بھی کی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے ایغور اقلیتی باشندوں کی محض تربیت کی جا رہی ہے۔
اس بارے میں خارجہ امور کے ملکی وزیر مارک گارنو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ”کینیڈا کی حکومت نسل کشی سے متعلق کسی بھی طرح کے الزامات کے بارے میں انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہمیں ان رپورٹوں پر بھی گہری تشویش ہے، جن کے مطابق سنکیانگ میں انسان حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔‘‘
Courtesy: DW