تسمعیہ عزیز
دنیا میں رونما ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلی اور انقلاب میں عورت ایک کا اہم کردار رہا ہے ۔ اور آج بھی ہے۔ اس کے برعکس آج بھی اگر کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اسے قتل کرکے زندہ درگور کیا جاتا ہے۔مجھے عزت کے نام پر ذہنی اذیت دی جاتی ہے مار پیٹ دی جاتی ہے۔ مجھے معاشرے میں نہ کچھ دیکھنے، بولنے اور سننے کی اجازت ہے، مجھے بہرہ گونگا اور آنکھیں ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھنے کی تنبیہ کی جاتی ہے۔ کیا میں ایک انسان نہیں ہوں؟ کیا عورت انسان نہیں ۔۔۔
مجھے معاشرے میں اپنی وجود قائم کرنے کو کیوں کئی سوالات کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ مجھے میرے لئے گئے فیصلوں پر کیوں قتل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فیصلے درست ہوں ۔ میری معاشرے میں ایک اہم کردار اس لئے بھی ہے کہ میں ایک ماں ہوں۔ اور مجھ میں بچے بچیاں جننے کی خاصیت ہے۔ میں لڑکے لڑکیاں پیدا کرتی ہوں۔ میرا لڑکا آدھی رات کو گھر سے بلا خوف و حراس نکل جاتا ہے اور وہی میری لڑکی کو نہ باہر جانے کی اجازت ہے۔ نہ اسے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایک مرد آدھی رات کو باہر نکل سکتا ہے لیکن عورت کیوں نہیں نکل سکتی؟
کیوں ہمارا معاشرہ خوف کا شکار ہے؟ کیوں عورتیں اس خوف کے ماحول سے باہر نہیں نکل پاتیں۔ ہم معاشرے میں جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں ہم نے خود وہ تبدیلی قبول نہیں کی ہے۔ ایک مرد آدھی رات کو باہر نکل سکتا ہے جبکہ وہی ایک عورت جب باہر نکلنے کا سوچتی بھی ہے تو اسے تشدد کیا جاتا ہے اسے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہم نے کیوں اپنے معاشرے میں اتنا خوف پیدا کیا ہے؟
کیوں ہمارا سماج اس خوف کا شکار ہے؟ اگر ایک عورت باہر نکلتی ہے تو اسے ہر جگہ ہراس کیا جاتا ہے وہ نظریں جھکا کے چلتی ہے لیکن بس اسٹاپ پر اور دیگر پبلک مقامات پر اسے ہراس کیا جاتا ہے۔ اس معاشی پستی میں خود عورتوں کا اتنا ہی ہاتھ ہے جب ایک عورت باہر نکلتی ہے تبدیلی کی بات کرتی ہے تو عورت خود کہتی ہیں تم کسی کی عزت ہو تم کیا تبدیلی لا سکتی ہو۔ اسے طرح طرح کے ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ کیوں ایک عورت دوسرے عورت کو نہیں سمجھتی؟ کبھی ہانی کی شکل میں بلوچی رسم و قول کے عوض بھیج دیا جاتا ہے تو کبھی ملک ناز بن کر مزاحمت کرنے کے باعث قتل کردیاجاتا ہے اور کبھی برمش بن کر ایک انقلابی آواز اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور پوری بلوچ قوم متحد ہوجاتی ہے۔ اگر بلوچ پہلے متحد ہوجاتےتو شاہد آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ تو کہی فرزانہ کی صورت میں عزت کی خاطر انکے اپنی ہی والد کے ہاتھوں قتل کردیا جاتا ہے کیوں؟
کتنی بار مجھے ماروگے؟ اور یہ ستم کب تک ؟؟؟،
میں ہمیشہ زندہ ہوں اور زندہ رہو گا ۔ کیوں کہ میں ایک عورت ہوں! اور عورت نے اس سماج کو جنم دیا ہے اس کا یہی قصور ہے ۔۔۔کیا عورت ) میں ایک انسان نہیں ہوں کیا مجھے میری زندگی میرے خواہشات کے مطابق جینے کا حق نہیں ہے؟ کیونکہ میں ایک عورت ہوں، میرا قصور یہ ہے کہ میں ایک عورت ہوں۔ میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا چاہتی ہوں۔ اگر میرا قصور یہ ہے کہ میں ایک عورت ہوں۔۔۔۔ تو یہ جرم میں جنم جنم کروں گا ۔ اور میں چلا کر کہوں گا ہر چوک اور چوراہے میں کہوں گا ۔
ہاں میں ایک عورت ہوں!!!
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.