ندیم ودار
جیسا کہ ہم سب اس واقعہ سے آشنا ہیں کہ کچھ دن پہلے چاغی نوکنڈی میں غریب اور بے بس ڈرائیورز جو اپنی ماؤں، بہنوں، بیوی اور بچوں کے دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے کئی کلو میٹرز تک کا سفر کرتے ہیں، پاکستانی فورسز کے ہاتھوں تشدد و قتل و غارت کا شکار ہو گئے۔ افسوس ہے کہ ہمیں اپنے ہی معدنیات و دیگر وسائل سے مالا مال سر زمین میں دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے کئی مشکلات و تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے-
پاکستان کی جانب سے ہمارے وطن کو قبضہ کرنے کے بعد سے آج تک ہمیں ہمہ روز خوار اور ذلیل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ظالم افواج کے ہاتھوں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ فوج کی بربریت کی مثال محض چاغی نوکنڈی کے یہ حالیہ واقعات نہیں بلکہ کئی سالوں سے ہم ان کے ظلم اور بربریت کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔
ظلم اور بربریت اپنی انتہا کو پہنچی ہے۔ روز کا اغواہ ہونا اور نسل کُشی سے لوگ اب ذہنی مریض ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم چھٹیان منانے گھر جا رہا ہے یا ہاسٹل میں ہے تو محفوظ نہیں ہے۔ اور اگر کوئی مزدور اپنے کاروبار پہ جا رہا ہے تو وہ بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے۔ بلوچستان میں قتل و غارت کے ایسے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں-
ایسے میں عام عوام کی امیدیں اپنے قومپرست سیاستدانوں سے بندھے ہیں لیکن بلوچستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اور سیاسی تنظیموں کا کردار اطمینان کن نہیں ہے- اگر ضرورت ہے تو دور اندیش سیاسی پالیسیوں اور فیصلوں کی جس میں بلوچستان اور اسکے فرزندوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی تنظیمیں اور رہنماء مل کر آپسی مشاورت سے مستقبل کے فیصلے لیں اور بلوچ عوام کو اپنے ان فیصلوں میں اعتماد میں لیں جس سے عوام میں ایک نئئ امید پیدا ہو سکتی ہے-
مصنف اسلامی یونیورسٹی آف بھاولپورمیں تاریخ کا طالب علم ہے