غنی حسرت
جمہوریت ایک ایسا طرز عمل ہے جس میں اصل حق حکمرانی عوام کے پاس ہوتا ہے آجکل کے دور میں ایک کامیاب ریاست کیلئے حقیقی جمہوری نظام کا ہونا بہت ضروری ہے اگر ہم دنیا کے مضبوط طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے بیشتر ممالک میں ایک مضبوط اور دیرپا جمہوری نظام رائج ہے جمہوریت میں حکومت عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں ابتداء سے لیکر آج تک جمہوریت مسلسل بحرانوں کا شکار ہی رہی ہے چونکہ ہمارے ہاں جمہوری عمل حقیقی معنوں میں فروغ نہیں پاسکا جس کی وجہ سے ہمارے مزاج بھی بہت حد تک متاثر ہوئے ہیں- جمہوریت کی مضبوطی میں اور بہت سے عناصر کے علاوہ سیاسی جماعتوں کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے اور رول ماڈل ہوتا ہے اور ہمارے ہاں بدقسمتی سے جمہوری عمل تواتر کے ساتھ تعطل کا شکار رہا ہے اور جو تھوڑی بہت جمہوریت چلی ہے اسے بھی صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں کہا جاسکتا- اس سارے عمل کی وجہ سے سیاسی جماعتیں بھی بہت حد تک متاثر ہوئی ہیں سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکا جس کی بہت سی وجوہات ہیں ان میں خود سیاسی قیادت کے رویے کا بھی بہت عمل دخل ہے جبکہ غیر جمہوری قوتوں کا کردار تو ظاہر ہے ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے- ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں میں سیاست زیادہ تر شخصیات کے گرد ہی گھومتی آرہی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نوجوان جمہوریت کے پیروکار ہونے کے بجائے شخصیت پرست اور زہنی غلام بن رہے ہیں ۔
نیشنل پارٹی اور اسکے اکابرین نے ہمیشہ جمہوریت کی بالا دستی کی خاطر جدوجہد کی ہے- ان میں ایک نام میر حاصل خان بزنجو کا ہے- ان کے وفات پا جانے سے صرف نیشنل پارٹی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں جمہوریت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے-
جب تک سیاسی قیادت اپنی جماعتوں کے اندر جمہوری سوچ اور کلچر کو فروغ نہیں دیگی اور تنظیم سازی پر توجہ نہیں دیگی جس سے کارکنوں کو عزت اور اہمیت مل سکے یہ جماعتیں کبھی بھی مضبوط نہیں ہونگی، اور اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں گی، اسکے علاوہ مقبول سیاسی قیادت ہر وقت غیر جمہوری قوتوں کے نشانہ پر رہے گی- نیشنل پارٹی میں میر غوث بخش بزنجو کے فکر سے منسلک اور میر حاصل خان بزنجو کی لیڈر شپ سے متاثر کسی بھی ورکر نے آج تک نیشنل پارٹی سے بے رخی یا دل رنجی کا اظہار نہیں کیا یہ سب کچھ ڈپینڈ کرتا ہے لیڈر شپ پر جسے میر حاصل خان بزنجو نے بخوبی نبھایا۔
میں یہ بالکل نہیں کہتا کہ میر جمہوریت فکر بزنجو قائد نیشنل پارٹی ہم میں نہیں رہے وہ آج بھی زندہ ہیں پاکستان کے جمہوریت پسند ایوانوں میں پاکستان کے جمہوریت پسند لیڈروں میں، نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار کے ہر ورکر میں جس نے میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو کے سائے میں سیاسی نشونما پا کر بی ایس او اور پھر نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم پر بلوچستان کے حق و حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے یا کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں بہت سے لیڈر شپ آئے گئے کسی کو تاریخ سنہرے حروف میں یاد رکھے گا تو کوئی تاریخ کی گمنامی میں کھو جائے گا- مگر میر حاصل خان بزنجو نے بلوچستان کے حق و حقوق اور جمہوریت کو لے کر کبھی بھی کسی بھی سیاسی پلیٹ فارم پر سمجھوتہ نہ کرکے اپنی تاریخ خود ہی لکھ ڈالا، یہ بلوچستان کے مٹی کے لئے فخریہ تقویت شدہ مرحلہ تھا کہ پنجاب کے ایوانوں میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دان اور لیڈرز میر حاصل خان بزنجو کو یاد کر کے صرف رو نہیں رہے تھے بلکہ برملا اعتراف کر رہے تھے کہ آج پاکستان ایک جمہوریت پسند لیڈر سے محروم ہوگیا ممکن ہے کہ پاکستان میں میر حاصل خان بزنجو جیسا لیڈر نہ ہو-
میر حاصل خان بزنجو جو بیک وقت ایک لیڈر بھی تھے, سیاست دان بھی تھے اور ایک ورکر بھی تھے جہنیں ورکرز سے پیار سے پیش آنے والا شفیق استاد بھی کہا جاتا ہے میر حاصل خان بزنجو کے فکر اور فلسفہ سب کے لیے مشعل راہ ہے ورکر استفادہ حاصل کر کے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں انکی ادھوری چھوڑی ہوئی مشن کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی کوشش کریں-
غنی حسرت بی ایس او پجار سے منسلک ہیں اور بلوچستان کے مختلف مسائل پر لکھتے رہتے ہیں-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.