نصیب قمبرانی
اس بات سے کوئی ذی شعور اِنکار نہیں کرسکتا کہ دُنیا کے بڑے بڑے ممالک مہنگائی جیسے ناسور کی لپیٹ میں ہیں جن میں امریکا، ترکی اور دیگر بڑے بڑے ممالک شامل ہیں مگر پاکستان میں اس ناسور نے ایک خطرناک شکل اختیار کی ہوئی ہے جسکی وجہ سے عام شہری کیلئے زندگی عذاب بن چکی ہے بلکہ کئی لوگوں نے اسی مہنگائی کی وجہ سے خودکشی کرکے موت کو اس ملک میں زندہ رہنے سے زیادہ ترجیح دی ہے۔
پتہ نہیں اپنے اصل موضوع کو کیسے اور کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں کیونکہ بلوچ کا قلم بھی داستانِ غم و بدحالی کو لکھ لکھ کر تھک چکا ہے مگر شیشوں کے محلون میں بیٹھے ظالم و جابر اور بدعنوانی کے ٹھیکیداروں کو ترس نہیں آتا۔ 1947 کی ایک درمیانی رات تھی کہ میرے مُقدر کا فیصلہ مجھ سے بزور تیر و شمشیر چین لیا گیا مگر میرے وطن نے وعدہ کیا تھا کہ میں دراز سینے میں چپھائے تمام مال و مڈی سے اپنے خاک سے جنم لینے والوں کو کبھی بھوکا رہنے نہیں دونگا مگر کیا پتہ تھا کہ ظالم شکاری توپ و تپنگ کے زور سے میرے وسائل کو بے دردی سے لوٹ کسھوٹ کر کے کبھی چائنا و کبھی کینیڈا کے حوالے کریگا اور میں نان شبینہ کا محتاج ہوجاؤنگا۔
بلوچستان کے لوگوں کیلئے ریاست کی طرف سے کوئی پیکج اور زریعہ معاش نہیں ہے سوائے روز روز کے لاشوں کے تحفوں کا- اگر کوئی پیکج یا زریعہ معاش ہوتا تو بلوچ دوسروں کے در کے ٹکروں کی حصول میں ایسا اُلجھا نہیں ہوتا بلوچ اپنی روزی کو تلاش کرنے کیلئے بارڈر کو اپنا زریعہ سمجھتے ہیں لیکن یہ ریاست کو ہضم نہیں ہوتا- اگر اس ٹریڈ کا پس منظر دیکھا جائے تو یہ بہت قدیم ہے اور بلوچستان میں رواداری کی وجہ سے ابھی تک قائم و دائم ہے کیونکہ ایران اور افغانستان کیساتھ ہم بلوچوں کے بہت دیرینہ تعلقات ہیں بلکہ اِن دونوں ممالک کی آبادیوں کا اہم حصہ بلوچوں پر مشتمل ہے- یہی وجہ ہے کہ ہمارے عام بلوچ اس میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے کچھ لو اور کچھ دو والے اس ٹریڈ کے زریعے اپنے گھروں کا چولھا جلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مگر اب ریاست اسی زریعہ معاش کو چیننے کی تگ و دود میں گھات لگائے بیٹھا ہے۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ بلوچستان کا علاقہ چاغی جہاں سونا چاندی، تانبا اور دیگر قیمتی معدنیات موجود ہیں اور اپنے ان تمام وسائل کی وجہ سے پوری دُنیا میں جانا جاتا ہے بلخصوص چائنا اور کینیڈا کی معشیت میں اپنا حصہ دے رہا ہے- دوسری جانب اسی چاغی میں جب بلوچ بے روزگاری اور بدحالی سے تنگ آ کر باڈر کا رُخ کرتے ہیں تو واپسی پر ریاستی اہلکاروں کی جانب سے انکی ماؤں کو اُنکے پیاروں کی لاشوں کا تحفہ دیا جاتا ہے جو اس ریاست کیلئے کسی المیہ سے کم نہیں اور ریاست کے ذمہ داروں کے منہ پر زوردار تمانچہ ہے- ریاستی حاکم اگر بلوچوں کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے تو کم از کم ان سے انکی روزی روٹی نہ چھینے-
مصنف بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کونسل ممبر ہیں۔