منّان صمد
چار ابواب پر مشتمل ”تعلیم اور مظلوم عوام“ کتاب برازیلین ماہرِ تعلیم اور دانشور پالو فرارے کی شاہکار ہے۔ یہ ایک انقلابی کتاب ہے جس کا دنیا کے مختلف تعلیمی اور سماجی تحریکوں پر اثر و رسوخ رہا ہے۔ پالو فرارے نے اپنے اس تصنیف میں ظالم اور مظلوم کے رشتے، مظلوم عوام کی دہرے پن، نوآبادیاتی زہنیت، بینکنگ نظریہ تعلیم، مکالمے کی اہمیت، کلچرل ترکیب کی افادیت کا نقشہ انتہائی عمیق اور دقیق انداز میں کھینچا ہے۔
کتاب کے پہلے باب میں مصنف انسانی خصوصیات سے محرومی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انسانی خصوصیات سے محرومی انسان کی ایک مسخ شدہ شکل ہے اور اس شکل کو انسانی روپ میں دھارنے کیلئے اور اپنی کھوئی ہوئی انسانیت کو واپس حاصل کرنے کیلئے مظلوم اجتماعی طور پر جہدوجہد کریں اور وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مظلوم کو ظالم کی ڈگر پر چل کر اسکا جیسا نہیں بننا چاہیے بلکہ وہ جہدوجہد کا ایسا راستہ اختیار کریں جس سے دونوں طبقات یعنی ظالم اور مظلوم کو اپنی کھوئی ہوئی انسانیت واپس مل جائیں (مصنف دراصل یہاں انسانیت کا پرچار کرتے ہوئے ظالم اور مظلوم دونوں کی آزادی سے ہمکنار ہونے کا خواہاں ہے) لیکن مصنف کہتا ہے کہ جہدوجہد کے ابتدائی مراحل میں مظلوم آزادی کیلئے جہدوجہد کرنے کے بجائے ظالم یا نیم ظالم بننے کا رجحان رکھتے ہیں جس سے افقی تشدد پروان چڑھتا ہے (افقی تشدد سے مراد وہ تشدد ہے جو مظلوم طبقہ کے افراد اپنے ہی طبقہ کے افراد کے خلاف کرتے ہیں) یہ دراصل اس بات کا غماز ہے کہ سماج میں جبر کے ڈھانچے کی وجہ سے ظالم مظلوموں کے اندر سرایت کرچکا ہے، اسی لئے وہ ظالم کو اپنی ذات سے باہر نہیں دیکھ پاتے کیونکہ حاکموں کا حاکمانہ جبر پر مبنی سایہ اب تک محکوموں پر غالب ہوتا ہے۔ مظلوم ظالم کو اپنے اندر گھر کرنے کے بجائے اُسے اپنے تصور سے اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ خودمختاری اور ذمہ داری کو دیں کیونکہ آزادی تحفے کے طور پر نہیں ملتی بلکہ آزادی لگاتار کوششوں اور مسلسل جہدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والا ثمر ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ مظلوم آزادی کی اس جہدوجہد میں اس لئے خائف ہوتے ہیں کیونکہ جبر و استبداد کے اس ڈھانچے نے مظلوموں کے فخر و احساس کو اس ڈھنگ سے ڈھال دیا ہے کہ وہ جبری صورتحال کو رضائے الہی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ مظلوم اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ آزادی کے بغیر وہ مسند وجود نہیں رکھتا لیکن استبدادی ڈھانچے کی اثرات کے باعث مظلوم دوہرے پن کا شکار ہوتا ہے اور بیک وقت ظالم اور مظلوم کا کردار ادا کرنے لگتا ہے۔ ان دو متبادل راستوں میں سے مظلوم کو کسی ایک راستے کا چناؤ کرنا ہوگا۔ یعنی ظالم کو اپنے اندر سے مکمل طور پر اکھاڑ پھینکیں یا اُسے اپنے اندر اسی طرح پروان چڑھائیں- مصنف مزید اس باب میں ظالم طبقات کی ”جھوٹی فیاضی“ کو بےنقاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ظالم اپنی جبر و استبداد پر منبی نظام کو طول دینے کیلئے جھوٹی فیاضی، جھوٹی سخاوت یا خیرات کا سہارا لیتا ہے تاکہ ظلم کے شکنجے سے جھکڑے ہوئے مظلوم عوام بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے لرزتے ہاتھ خیرات کیلئے بڑھائیں اور ظالم کو اپنا مسیحا سمجھنے لگیں اور ظالم اپنی اس جھوٹی فیاضی کی آڑ میں بربریت کی آگ کو مزید بھڑکاتا رہے اور نام نہاد پدرانہ شفقت کے پردے میں مظلوموں کو غلام بنانے کا عمل جوں کا توں جاری رہ سکے۔ مصنف خوب کہتا ہے کہ تشدد ظالم و مظلوم کے درمیان پیدا ہونے والے رشتے کا نکتہ آغاز ہے۔ مظلوم عوام نے کبھی تشدد کا آغاز نہیں کیا بلکہ وہ خود تشدد کی پیداوار ہیں جو ظالم ان پر تشدد کرتے ہیں اور انکا استحصال کرتے ہیں۔ ظالموں نے کبھی بھی مظلوم عوام کو مظلوم تصور نہیں کیا بلکہ وہ انہیں ”ایرے غیرے“ ”جاہل“ ”وحشی“ یا ”تخریب پسند“ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کے درمیان تضاد کا حل صرف اس بات میں مخفی ہے کہ ظالم کا بطور طبقہ کے مکمل خاتمہ۔ اس ظالم طبقے کے خاتمے اور آزادی کی جہدوجہد کیلئے مظلوموں کے ساتھ تنقیدی اور آزادی بخش مکالمے کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہیے لیکن اس مکالمے کو خودکلامی، نعرہ بازی اور اعلامیے کے طور پر استعمال کرنا انہیں بےجان اشیاء کے برابر سمجھنے کے مترادف ہے۔ آزادی کے عمل میں مظلوموں کی فکری شرکت ناگزیر ہے۔ غوروفکر کا مطلب یہ نہیں کہ مظلوم کرسی یا صوفے پر بیٹھ جائیں اور محض غوروفکر کے زریعے انقلاب لائیں بلکہ سچا غوروفکر ہمیشہ عمل کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ دراصل غوروفکر اور عمل ایک ہی محور کے گرد گھومتے ہیں۔ انقلابی قیادت کا آزادی کی جہدوجہد کی خاطر مظوموں کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے انکے ساتھ مسلسل مکالمہ اور باہمی گفت و شنید کا ایک مستقل رشتہ استوار کرنا ہوگا۔ مظلوموں پر ترس کھاکر ”ان کیلئے نہیں“ بلکہ ”ان کے ساتھ“ مل کر جہدوجہد کا راستہ اپنانا چاہیے، تب ہی تبدیلی کا عمل مستند اور آزادی کا جہدوجہد ثمر آور ثابت ہوسکتا ہے۔
کتاب کے دوسرے باب میں مصنف بینکنگ نظامِ تعلیم پر تنقید کرتے ہوئے استاد اور شاگرد کے رشتے کو بےنقاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ استاد طالب علموں کے اذہان میں معنوی اعتبار سے کھوکھلے معلومات اور حقیقت سے بیگانہ نظریات ٹھونسنے پر بضد ہے۔ الفاظ کو صرف گونج میں بدل دیا جاتا ہے یعنی ”چار ضرب چار سولہ ہیں“ جس کو شاگرد بارہا دہراتا رہتا ہے جبکہ طالب علموں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ چار ضرب چار کی کیا اہمیت ہے؟ اصل میں یہ کیا معنی رکھتے ہیں؟ چار ضرب چار سولہ کیوں ہوتا ہے سترہ کیوں نہیں ہوتا؟ بینکنگ نظامِ تعلیم میں سوچنے اور سوال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، طلباء صرف بیان سنیں اور اپنے خالی دماغ بھر لیں۔ طلبا بیان کردہ لیکچر کو سن کر مشینی انداز میں یاد کرلیتے ہیں۔ استاد شاگردوں کو ”ظروف“ یعنی خالی برتنوں میں تبدیل کردیتے ہیں جہنیں بس اِن خالی برتنوں کو بھرنا ہے۔ جو استاد زیادہ ان برتنوں کو بھرتا ہے، اتنا ہی بہتر وہ استاد کہلاتا ہے۔ تدریس کے عمل میں استاد کا عمل فاعل جبکہ طالب علموں کا عمل صرف مفعول کی حیثیت رکھتا ہے جس سے انکی تنقیدی شعور ملیامیٹ ہوکر رہ جاتی ہے۔ بیکنگ نظریہ تعلیم کا مفاد ہی یہی ہے کہ طلباء کی تخلیقی قوت کو ختم کیا جاسکے تاکہ وہ حقیقت کا تنقیدی جائزہ نہ لے سکیں بلکہ اسکا سارا توجہ ”روجر نے بکرے کو گھاس دیا“ پر مرکوز رکھا جاسکے۔ بینکنگ نظریہ تعلیم جو پراپیگنڈہ، نعرہ بازی، ذخیرہ اندوزی پر مبنی ہے، سے منسلک ہوکر آزادی کے کاز کو تقویت نہیں پہنچایا جاسکتا۔ تعیلم کا یہ نظام بیگانگیت کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ بیگانگیت کے شکار مظلوم عوام سچی آزادی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ بینکنگ نظریہ تعلیم کے بجائے ”مسئلہ بناکر پیش کرنے والی تعلیم“ کو اپنایا جائے جو باہمی تبادلہ خیال کو اختیار کرتی ہے۔ آزاد بخش تعلیم حقیت کے تنقیدی ادارک کے عمل کا نام ہے، آگہی کی صورتحال کا نام ہے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان رابطے اور مکالمے کا نام ہے، معلومات کی منتقلی کی نہیں۔ بینکنگ نظریہ تعلیم ان تضاد کو تقویت دیتا ہے کہ استاد سکھاتا ہے او شاگرد سیکھتا ہے۔ استاد ہر بات جانتا ہے اور شاگرد کچھ نہیں جانتا۔ استاد سوچتا ہے اور شاگرد نہیں سوچتا۔ استاد بولتا ہے اور شاگرد سنتا ہے وغیرہ وغیرہ اور ان تضادات کو کھوکھلا ثابت ”مسئلہ بناکر پیش کرنے والی تعلیم“ کا نظریہ کرسکتا ہے۔
کتاب کے تیسرے باب میں مصنف مکالمے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ لفظ اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے یعنی غوروفکر و عمل۔ دونوں بیک وقت ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ کوئی بھی لفظ اس وقت سچا نہیں ہوسکتا اگر وہ بیک وقت مستند عمل نہ ہو۔ اگر لفظ عملی پہلو سے محروم ہو تو غوروفکر متاثر ہوجاتی ہے اور لفظ محض زبانی لفاظی، گپ شپ اور بیگانگیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف غوروفکر کے بغیر عمل محض اندھا عمل بن جاتا ہے جس سے مکالمہ ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔ سچا مکالمے کیلئے تنقیدی سوچ کے عنصر کا شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ محبت، انکسار اور یقین کی بنیادوں پر مستحکم مکالمہ انسانوں کے درمیان ایک متوازی تعلق قائم کرتا ہے جس سے مکالمے میں شریک لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہوجاتا ہے۔ مظلوموں کی آزادی کا کاز دراصل مکالماتی ہے۔ حکمران طبقات مظلوموں میں بےعملی کو فروغ دینے کیلئے اپنی سیاسی سرگرمیوں میں بینکنگ طریقہ کار کو استعمال کرتے ہیں۔ زعماء اس بےعملی کا فائدہ شعور کو نعرہ بازی سے ”پُر“ کرکے اُٹھاتے ہیں۔ اس نعرہ بازی سے ان میں آزادی کا خوف مزید پیدا ہوجاتی ہے۔ انسان دوست انقلابیوں کا یہ کام نہیں کہ ظالموں کے نعروں کے مقابلے میں اپنے نعرے پیش کریں بلکہ اس کے برعکس اُنکی ذمہ داری یہ ہے کہ مظلوم اس بات کا شعور حاصل کرسکیں کہ ظالم کو اپنے دل میں بساکر اور دوغلے وجود کا شکار ہوکر آزادی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ اس ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ انقلابی رہنما عوام کی نجات کا مسیحا بن کر اُبھریں بلکہ عوام کے ساتھ مکالمے کے زریعے خود اپنی اور عوام کی معروضی صورتحال سے آشنا ہوجائیں۔ مختصراً حقیقی انقلابی کا رول عوام کے ساتھ مل کر آزاد ہونا اور آزاد کرنا ہوتا ہے۔ مصنف ”تخلیقی مرکزی خیال“ کے زمرے میں نوشت کرتا ہے کہ تخلیقی مرکزی خیالات کے پورے ڈھانچے کی پوری تحقیقات سے دراصل آزاد بخش تعلیماتی مکالمہ کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ تخلیقی مرکزی خیال کو دریافت کرنے کے ساتھ ہی عوام ان مرکزی خیالات سے آشنا ہوسکیں گے۔ تخلیقی مرکزی خیال کی تحقیق دراصل انسان کی حقیقت کے بارے میں سوچ اور عمل دونوں کی تحقیق ہے۔ ان مرکزی خیال کو ”تخلیقی“ اس لیے کہا گیا کہ ان مرکزی خیالات کے اندر کئی دوسرے مرکزی خیالات پوشیدہ ہیں۔ جیسا کہ غلامی اور آزادی دو متضاد مرکزی خیال ہیں جو اپنے اندر مختلف نوعیت کے خیالات اور اعمال کو پروان چڑھاتے ہیں۔
کتاب کے آخری باب میں مصنف گزشتہ ابواب کے نکات کو مزید وسعت اور گہرائی کے ساتھ وضاحت کرتا ہے۔ مصنف لینن کے مشہور قول کا حوالہ دیتا ہے کہ: ”ایک انقلابی نظریہ کے بغیر کوئی انقلابی تحریک جنم نہیں لے سکتی“ لینن کا دراصل مطلب یہ تھا کہ انقلاب کا حصول نہ صرف زبانی لفاظی اور چرب زبانی کے اکتفا سے ممکن ہے نہ ہی غوروفکر سے عاری عمل سے بلکہ غوروفکر و عمل دونوں کے امتزاج سے ہی ممکن ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ سازباز، نعری بازی، فکری تسلط، سخت سیاسی نظم و ضبط اور یک طرفہ احکامات سے انقلابی مستند عمل تشکیل نہیں کرسکتے بلکہ تسلط و غلامی کے عمل کی تشکیل کرتے ہیں۔ انقلابی لیڑر جو اپنے اور عوام کے مابین رشتے میں مکالماتی طرزِ عمل اختیار نہیں کرتے، انکے اندر یا جبری ڈھانچے کی اثرات گھر کرچکے ہیں یا سچے انقلابی کردار ادا کرنے سے انکاری ہیں یا اپنے افکار و نظریات کے بارے میں غلط تصورات کا شکار ہیں۔ تنگ نظری کے دائرے میں دھنسے ایسے قائدین برابر کے غیرانقلابی ہیں۔ مکالماتی عمل کے بغیر سچا انقلاب کبھی جنم نہیں لے سکتا۔ ایک سچے انقلاب کیلئے لازم ہے کہ وہ جلد یا بدیر عوام کے ساتھ جرات مندانہ مکالمے کا آغاز کرے۔ جس قدر جلد کسی تحریک میں مکالمہ کا آغاز ہوگا اتنی ہی زیادہ وہ تحریک سچی انقلابی ہوگی۔ باہمی تبادلہ خیال کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا اور انسانوں کو ”اشیاء“ کی سطح پر گھٹانے کے برابر ہے اور یہ ظالموں کا کام ہے، انقلابیوں کا نہیں۔ قائدین اور مظلوم عوام کا دو مختلف اطراف میں کھڑے ہونا دراصل جبر کے تعلقات کا مظہر ہے۔ انقلاب نہ تو قائدین عوام کیلئے برپا کرتے ہیں اور نہ ہی عوام قائدین کے لئے بلکہ یہ مشترکہ عمل کے زریعے سے ہوتا ہے۔ اگر انقلابی رہنما عوام کے ساتھ مل کر نہیں سوچتے ہیں (جیسا کہ ظالم کرتے ہیں) تو وہ اپنی قوت کھو دیتے ہیں جس سے انقلابی لیڑرشپ کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ انقلابی نہ جھوٹے فیاض ہوتے ہیں اور نہ ہی ساز باز و عیاری سے عوام کو استعمال کرنا انہیں زیب دیتا ہے۔ ظالم عوام کو پاؤں تلے روند کر پھلتے پھولتے ہیں جبکہ انقلابی لیڈران عوام کے صحبت میں ہی توانا بن کر اُبھرتے ہیں۔ عوام کے ساتھ مکالمہ نہ تو رعایت ہے اور نہ ہی تحفہ ہے بلکہ سچی انسانیت کی تکمیل کی ایک بنیادی شرط ہے جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ جس قدر زیادہ کوئی انقلاب نظریہ کا متقاضی ہے، اسی قدر زیادہ انقلاب کے رہنماؤں کا عوام کے ”ساتھ“ ہونا لازم ہے تاکہ جبر کی قوت کو پارہ پارہ کیا جاسکے۔ غیر مکالماتی عمل کے نظریوں پر ایک جائزہ لیا جائے تو اس میں ”غلبہ“ بھی ایک غیر مکالماتی عمل ہے جس میں غالب مغلوب پر اپنے مقاصد ٹھونستا ہے تاکہ وہ ایک مبہم وجود اختیار کرے۔ ان ناپاک مقاصد کی تکمیل کیلئے جھوٹے اور گمراہ کن پراپیگنڈہ کا سہارا لیا جاتا ہے جس کو ”منظم نعرہ بازی“ اور ”عوامی ذرائع ابلاغ“ کی مدد سے پیش کیا جاتا ہے۔ ”پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو“ بھی ایک ظالمانہ رویہ اور غیر مکالماتی عمل ہے جس میں ظالم اقلیت مظلوم اکثریت کو مطیع اور مغلوب کرتی ہے۔ ”عیارانہ سازباز کے زریعے لوگوں کو استعمال کرنا“ غیر مکالماتی عمل کے نظریے کا ایک اور نمایاں پہلو ہے جس میں حکمران عوام کو اپنے مقاصد کی تائید و توثیق کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ عوام سیاسی ناپختگی کے باعث ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں آسانی سے استعمال ہوتے ہیں۔ ”کلچرل حملہ“ بھی غیر مکالماتی عمل کے نظریے کی ایک اور اہم خاصیت ہے جس میں حملہ آور کسی دوسرے گروپ کی ثقافتی سیاق و سباق میں سرایت کرتے ہوئے ان پر اپنا نکتہ نظر ٹھونستا ہے اور اس کے اظہار کے طریقوں کو روکتے ہوئے انکے تخلیقی پن کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے جس سے زیر حملہ گروپ حقیقت کو اپنے انداز کے بجائے حملہ آور کے اندازِ فکر کے مطابق دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ اسی لئے انقلابی رہنماؤں کیلئے ضروری ہے کہ وہ غیر مکالماتی طریقہ کار سے مکمل اجتناب کریں اور اس کے برعکس باہمی تبادلہ خیال کی راہ اختیار کریں۔ ”کلچرل حملہ“ کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے ”کلچرل ترکیب“ کو اپنانا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ کلچرل حملے کے تمام تضادات کا حل صرف یہی واحد راستے میں مضمر ہے۔ کلچرل ترکیب وہ کلچرل عمل ہے جس میں عوام اور رہنما مشترکہ طور پر شریک ہوتے ہیں۔ کلچرل عمل میں عوام تماشائی کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ وہ رہنماؤں کے ساتھ مل کر جبری ڈھانچے کا کایاپلٹنے کیلئے جہدوجہد کرتے ہیں۔ اسی لئے انقلابی رہنماؤں کے لئے لازم ہے کہ وہ عوام سے الگ کوئی تنظیم قائم کرنے سے گریز کریں۔ انقلاب کا سرچشمہ ہی عوام ہے۔ رہنما اور عوام مشترکہ طور پر انقلابی تحریک جنم دے کر آزادی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
”تعلیم اور مظلوم عوام“ کتاب ذہن کے دریچوں کو وا کرنے کی ایک سعی ہے جس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ یہ کتاب اُن تمام کارفرما مخفی عوامل کے پردے کو چاک کردیتی ہے جو مظلوم طبقات کو غلامی کا طوق پہنانے پر آمادہ کردیتی ہیں۔ یہ کتاب دراصل اُن سمتوں کو متعین کرتی ہے جن سمتوں پر چل کر مظلوم عوام جبری ڈھانچے کے اندر پنپنے والی نوآبادیاتی زہنیت کو پہچان سکتے ہیں اور اُسے مات دے کر انقلاب اور آزادی کا راستہ ہموار کرسکتے ہیں۔
منّان صمد لاء کالج میں بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ڈپٹی یونٹ جنرل سیکریٹری ہیں۔