نصیر بلوچ
بلدیاتی انتخابات میں سیاسی رہنماوں نے اپنی قلابازیاں دکھائی عوام اپنے من پسند لیڈر کے گن گاتے رہے۔ یہ بات تو طے تھی عوام کا یہ دلخوش نعرہ سیڈ سونگ میں بدل جائے گا۔ الیکشن کے بعد عوام لیڈراں کی راہ تک رہے ہیں کہ آکر ان کے مسائل کا سدباب نکالیں جن کا وہ الیکشن سے قبل وعدہ کرچکے ہیں لیکن اب یہ ممکن نہیں جب تلک جنرل الیکشن قریب نہ آجائے۔ اس بار برسوں سے حکمران پارٹی باپ پارٹی کو ایک دھجکا ضرور لگا ہے یو سی کی چیئرمین شپ ان سے چلی گئی ہے اور اس طرح آئندہ انتخابات میں باپ پارٹی کے شکست کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو کو حالیہ بلدیاتی انتخابات سے سبق سیکھنا چاہئے اور کچھ ایسے اقدامات کرنے ہوںگے جس سے عوام میں انکی پزیرائی بڑھے۔
عبدالقدوس بزنجو آواران و مشکے کی بجلی کے لئے ایک بہترین اقدام اٹھایا ہے جو کہ قابلِ ستائش ہے۔ نوے کلومیٹر ایک لاکھ بتیس ہزار (132kv) مشکے تا آواران ٹرانسمیشن لائین اور ایک لاکھ بتیس ہزار کے (132k) گرڈ اسٹیشن بمقام آواران منظوری کے بعد متعلقہ حکام نے چالیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے(4060٫00٫000) کے فنڈز متعلقہ محکمے کو بھی جاری کردیئے ہیں۔ یہ ایک بہترین اقدام ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ عبدالقدوس حالیہ الیکشن سے کچھ سبق سیکھ چکے ہیں اور اسے اعتراف کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ توقع ہے اس بار مزید بہترین اقدامات اٹھائیں گے لیکن چند باتیں گوشگذار کرتا چلوں کہ گرلز کالج ماشی کی فعالی، سالوں سے بند آواران پاسپورٹ آفس کی بحالی سمیت کئی دیگر کام بھی کرلیں تو کیا ہی بات ہے۔ عوام کو اور کیا چاہئے اجتماعی کاموں سے لیڈر مرنے کے بعد محترم ہوتی ہے کیوں؟ کیوں کہ اس کے اجتماعی کام اور اچھے اقدامات ہی بار بار اپنی اچھائی ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں اور یوں ہر محفل میں اس کا زکر چھڑ جاتا ہے۔ ایسے لیڈر کو عوام بھلا کیسے گرنے دے گی جان دے دے گی لیکن اس پر آنچ بھی نہیں آنے دے گا۔
ہمارے لیڈر کا ایک مسلہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ کتابیں نہیں پڑھتے تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ اس لئے وہ غلطی کر بیٹھتے ہیں جس کی کوئی گنجائش نہیں۔ سانحہ آواران تاریخ کا حصہ ہے جس میں کئی لوگ موت کے گاڑ اتار دیئے گئے تھے۔ شہید محمد بخش میروانی ساکن لباچ، ،شہید رحیم بخش بلوچ ساکن ماشی، شہید خدارحم بلوچ ساکن جوئے قادر، شہید ظہور احمد بلوچ ساکن شگزّی جو،شہید محمد اسحاق بلوچ ساکن نیابت، شہید مولا بخش بلوچ ساکن ماشی ،شہید آسکو بِنتِ واحد بخش بلوچ ساکن ماشی ،عابد علی ساکن ماشی / آسکو کی گود میں دو مہینے کا ایک بچہ عابد بھی شہداء میں شامل ہے. مکمل آٹھ لوگوں نے کولواہ کی ہر دلعزیز رہنما ماسٹر صاحب کی محبت اور اپنی آئینی حقوق جمہوری طریقے سے حاصل کرنے پر احتجاجی جلوس کے دوران دشمن قوتوں کی ایما پر ایک سرکاری ملازم ڈی سی میران کاکڑ کے اشارے پر 12 جولائی 1996 کے دن تپتی گرمی میں ریسٹ ہاؤس کے سامنے گولیوں سے بھون دیئے گئے تھے. ان کے مرنے کا دکھ سے زیادہ عوام کو ماسٹر حسن صاحب کو قید و بند کرنے کا دکھ زیادہ ہے چونکہ وہ ایک سچا نہ جھکنے والا اور باآواز رہنما تھا جس کے واسطے کئی لوگوں نے اپنی جان قربان کردی لیکن انہوں کو افسوس نہیں ہوا۔ کہتے وہ کربلا کا منظر تھا عورتیں اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ مردوں شانہ بشانہ کھڑے تھے کہ مظالم ڈھانے شروع ہوگئے ہر سو گولیوں کی آواز تھی گیس کی شیلنگ دھندلا دھندلا سما تھا ماں بہنیں کس حال میں ہوںگی۔ یہ ہوتا ہے اصل لیڈر۔ آج بھی اکثر لوگ انہی کے خاطر انکے اولاد کو ووٹ دیتے ہیں۔ کام اور اچھے اقدامات ہی بار بار اپنی اچھائی ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں اور یوں ہر محفل میں اس کا زکر چھڑ جاتا ہے۔ ایسے لیڈر کو عوام بھلا کیسے گرنے دے گی جان دے دے گی لیکن اس پر آنچ بھی نہیں آنے دے گا۔
آج بھی اکثر لوگ انہی کے خاطر انکے اولاد کو ووٹ دیتے ہیں۔ لائبریری کا مسلہ جوں کا توں ہے- بالا چند غیر فعال اداروں کا ذکر کر چکا ہوں جو تاحال بند ہیں۔ تعلیم کا حال تباہ کن ہے، اسکولز بند ہیں آپ دوسری بار وزیراعلی کے منصب پر براجمان ہیں لیکن آپکے اپنے حلقے کا یہ حال ہے۔ آپ نے مشکے تا آواران ٹراسمیشن لائن نصب کرنے کے لئے فنڈز کا اجرا کیا ہے۔ توقع ہے کہ معمول کی طرح یہ صرف کاغذات کی حد تک نہیں رہے گا۔ خدارا اب ہوش کے ناخن لیں اور اپنے حلقے کے لئے ترقیاتی کام کریں وگرنہ الیکشن میں سخت شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آپ وزیراعلی کے منصب پر براجمان ہیں اگر ابھی اپنے حلقے کے لئے کچھ نہیں کرسکے تو کیسے توقع کریں کہ آگے جاکر ایم پی اے یا ایم این اے بن کر کچھ کریں گے۔ یہی صحیح وقت اپنے حلقے کے لئے کچھ ترقیاتی کام کرنے کا پھر پچھتاوے کیا جب چڑیا چگ گئی ہوت، والا معاملہ ہوجائے گا۔ رہی بات الیکشن کی حالیہ بلدیاتی الیکشن حکومت کی جانب سے آواران کے مختلف علاقوں کے کئی وارڈز میں دھاندلی کی گئی ہے۔ انتظامیہ کی ناقص کارکردگی اور آر او کی جاندارانہ رویہ پہلے ہی یہ مہر ثبت کرچکا تھا۔ بہرحال گزشتہ الیکشن سے تو بہتر چونکہ اس بار اپوزیشن لیڈراں نے دیدہ دلیری سے الیکشن کا نہ صرف سامنا کیا بلکہ بذات خود وارڑز کا دورہ بھی کیا۔ اس الیکشن میں ایک بات سیکھنے کی ہے کہ اب وہی آگے آئے گا جو عملی کارکردگی دکھائے کہ محض باتوں سے دل لبھانے والے رہنما اب زیادہ دیر نہیں چل سکیں گے چونکہ ووٹ کو تھوڑی بہت عزت مل رہی ہے اور جدید دور میں اب یہ مزید ممکن بھی نہیں۔
- بلدیاتی الیکشن کے بعد آواران کے سیاسی حالات - June 16, 2022
- بلوچستان کی مورثی سیاست اور بلدیاتی انتخابات - June 2, 2022
- بلدیاتی انتخابات میں سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال - May 22, 2022