:کراچی
شاعرگلزمین مبارک قاضی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تعزیتی پروگرام منعقد ہوا، جس میں مقررین نے ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کو بڑے خوبصورت اندازمیں اُجاگر کیا ، وہ نہ صرف دور حاضر کے عظیم شاعر تھے بلکہ اپنی پیدائشی سرزمین پسنی بلوچستان میں ایک بڑے سرکاری عہدہ پر فائز تھے ، اس کے باوجود ان کی زندگی فقیرانہ طور پر گزری ۔
اس سلسلے میں سینئر صحافی انور ساجدی نے مبارک قاضی کے بارے میں کہا کہ قاضی کو اپنی سرزمین اور عوام سے انتہائی پیار ومحبت تھی ان کا کلام الہامی ہے کیونکہ ان کی شاعری کے پیچھے ایک فکر موجود ہے اس فکر کا محور اس کی گل زمین ہے ۔
انہوں نے اپنے عوام کو جدوجہد کا راستہ دکھایا جو کئی برسوں سے جاری ہے ۔ا نہوں نے کہا کہ قاضی کی شاعری فکر انگیز اختیار کرتی جارہی ہے ۔ اس میں کوئی تضاد نہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے کبھی سرنڈر نہیں کیا اور بلوچ آگے بھی سرنڈر نہیں کریں گے بلکہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے ۔
قادر بخش کلمتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاضی مبارک ایک ملنگ صفت انسان تھے وہ اپنے لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ انہوں نے جو شاعری کی وہ سماج کی ناانصافیوں کی عکاسی کرتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں زندہ ہیں انہوں نے امن ومحبت کی بات کی اس لئے آج اس فانی دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود انہیں دنیا بھر میں یاد کیا جارہا ہے وہ ادبی دنیا کے درخشاں ستارے تھے ۔
ڈاکٹر پروفیسرعبدالواحد بلوچ نے قاضی کے بارے میں کہا کہ وہ ملک کے عظیم شعراءمیں سے ہیں، ان کی حیثیت فیض احمد فیض ، حبیب جالب، شیخ ایاز کی طرح ہے وہ انقلاتی شاعر ہونے کے ناطے اپنے چاہنے والوں کو اچھی زندگی کی اُمید دیتے رہے بلوچ نوجوانوں کو اچھی زندگی کی طرف راغب کیا، ان کی شاعری ترقی پسند اور روشن خیالی پر مبنی ہے ۔
شاعروصحافی احمد اقبال نے کہا کہ مبارک قاضی بنیادی طور پر صوفی تھے وہ بہت بڑے انسان تھے ان کی شاعری درد کا مجموعہ ہے اور ان کی شاعری لازوال ہے ۔
پروفیسر رمضان بامری نے کہا کہ قاضی مبارک کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کا آدمی نہیں تھا، ان کی شاعری میں روشن خیالی ، فکر اور اپنے عہد کی سچائی پر مشتمل ہے ، ان کی شاعری انفرادی اور اجتماعیت پر مبنی ہے وہ بلوچ قوم کو باشعور دیکھنا چاہتے تھے۔ شاعری میں انسانی سوچ اور تڑپ موجود ہے قاضی آرام پسند نہیں تھے ۔ انہوں نے نوجوان نسل کو ترقی کا راستہ بتا دیا جس کی وجہ سے ہر طبقے کے لوگ ان کی شاعری کو اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے سچائی کو نہیں چھوڑا کیونکہ ان کی زندگی میں انکساری موجود تھی۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ قاضی مبارک نے نا انصافیوں پر قلم اُٹھایا تھا وہ جیل جانے سے نہیں ڈرتے تھے وہ ایک باشعور انسان تھے انہیں الفاظ کے استعمال کرنے کا ہنر آتا تھا وہ ایک عہد ساز آواز تھے۔
سینئر صحافی اکرم بلوچ نے کہا کہ قاضی مظلوم ومحکموم عوام کے لئے پوری زندگی جدوجہد کرتے رہے اور آخری سانس تک قائم رہے وہ ایک بہت بڑے شاعر تھے۔
تعزیتی تقریب سے کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی شاعر وادیب وحید نور، بانک زاہدہ رئیس، کامریڈ واحد، اسحاق ثانی سعید، نور محمد نورل، ایڈوکیٹ جمیل اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔