سینئر سیاستدان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کہا بلوچستان کے ساحل ، وسائل کو لوٹنے والے یہاں ووٹ اور عوام کی رائے کو بھی چوری کرلیتے ہیں، میڈیا میں بلوچستان سے زیادہ منرل واٹر کی بوتل کو اہمیت دی جاتی ہے،بندوق کی نوک پر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ،طاقتور حلقوں کو بلوچستان سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی، بلوچستان کے لوگوں کو صوبائی خودمختیاری دی جائے،بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے ۔بلوچستان کے تمام سیاسی کارکنان اپنی توجہ شعوری سیاست کی جانب مرکوز رکھتے ہوئے پہلے اپنا پھر کئی دہائیوں سے مسلط لوگوں ، سیاسی جماعتوں سمیت پورئے سیاسی عمل کا احتساب کریں۔
یہ بات انہوں نے گزشتہ شب سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد کی جانب سے ان کی رہائش گاہ پر کوئٹہ پریس کلب کے عہدیداروں کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کہی ۔
عشائیہ میں کوئٹہ پریس کلب ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ،بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور ایڈیٹرز کونسل کے عہدراروں ، سینئر صحافیوں سمیت وزیراعظم ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے کوآرڈینیٹر ارسلان احمد ، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سید حیدر حسین سمیت دیگر نے شرکت کی۔
سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند اور کابینہ کے دیگر ارکان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عہدہ ایک اختیار اور امتحان ہوتا ہے، انہوںنے کہاکہ پاکستان کثیر القوامی ملک ہے یہاں ہزاروں سال سے مختلف اقوام اپنے اپنے رسم و رواج اور سرزمین پر آباد ہیں اور اس فیڈریشن میں بلوچستان کا رقبہ اور ساحل کو شامل کرکے 60 فیصد حصہ ہے۔ آئین کہتا ہے کہ وفاقی بجٹ ہو یا روزگار صوبے کا چھ فیصد حصہ بنتا ہے مگر دوسری جانب بلوچستان میں سو فیصد لوٹ مار ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2008کے انتخابات سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے پیش آنے والے ایک بہت بڑے سانحہ کے بعد اسٹیبلمنشٹ عارضی طور پیچھے ہوئی جس کے نتیجے میں ہم نے بلوچستان میں حکومت بنائی مگر اس کے بعد بلوچستان میں اختیار حاصل کرنے کیلئے مصنوعی فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ یہاں ووٹ اور عوام کی رائے بھی چوری کی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے جو ڈلیور نہیں کرسکتے اور ایسے لوگوں کو لایا جاتا ہے جنہوں نے ڈیل کی ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل پر خاموش رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ساحل ، وسائل اور لوٹ مار پر پارلیمنٹ میں بیٹھے سب کے سب خاموش ہیں ، بلوچستان کے عمومی معاملات کو دیکھنے اور سننے والا کوئی نہیں میڈیا پر پابندی ہے ، میڈیا میں بلوچستان سے زیادہ منرل واٹر کی ایک بوتل کو اہمیت دی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان تمام امور کو دیکھیں اپنی توجہ شعوری سیاست کی جانب مرکوز کرتے ہوئے پہلے اپنا پھر کئی دہائیوں سے مسلط لوگوں سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کا احتساب کریں۔ یہاں سیاسی جماعتوں کو سرمایہ کاری کی بنیاد پر ٹھیکیدار چلارہے ہیں اور ان ٹھیکیداروں کو بلوچستان کے کوٹہ پر صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ میں بھیجا جاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ کچھ پرانے لوگوں کو دوبارہ بلوچستان پر مسلط کرنے کی کی تیاری ہورہی ہے ،سیاسی کارکن اپنے آئندہ پانچ سال اور آئندہ نسل کے دفاع کیلئے اپنا ، اس نظام اور سیاسی عمل کا احتساب کریں۔ سیاسی کارکن میڈیا کے ذریعے ایجاد کئے گئے غیر سنجیدہ معاملات پر توجہ دینے کی بجائے بلوچستان کے معاملات پر توجہ دے کربلوچستان کی بدحالی کے خلاف جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال غربت کی وجہ سے کئی ہزار بچے اسکولوں سے باہر ہیں سیاسی کارکن کو یہ سوچنا چائیے کہ ان کی آئندہ نسل تعلیم سے محروم ہوکر رہ گئی ہے اور بلوچستان کی آئندہ ایک پوری نسل ناخواندہ ررہ جائیگی ۔