بلوچستان کو کراچی سمیت وسطی ایشیا، افغانستان اور ایران سے ملانے والی مرکزی شاہراہ عوام کیلئے پل صراط بن گئی، وبال جان بن گئی، کوئٹہ اور کراچی کے درمیان یہ واحد مرکزی شاہراہ ہے، اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے کیلئے کوئی اور شاہراہ موجود نہیں، اگر کسی شخص کو 10 کلو میٹر دور سے شہر کیلئے سفر کرنا ہے تو اسے اسی مرکزی شاہراہ کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔
سنگل لین ہائی وے 10 کے قریب بڑے شہروں چمن، پشین، کوئٹہ، مستونگ، منگچر، قلات، سوراب، خضدار، بیلہ، اوتھل اور حب چوکی سے گزرتی ہے، مقامی طور پر یہ شاہراہ ”قاتل سڑک” کے نام سے جانی جاتی ہے، یہ شاہراہ تجارت کے مناسبت سے اہمیت کی حامل ہے، مذکورہ شاہراہ لینڈ لاک (چاروں طرف سے خشکی سے گھرے) ملک افغانستان کو سمندر کے راستے دنیا کے دیگر ممالک سے ملاتی ہے اور نیٹو کا اہم روٹ سمجھی جاتی ہے۔
یہ شاہراہ خطے میں معیشت کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتی ہے، اس مرکزی شاہراہ سے سی پیک اور سرمایہ کاری بھی جڑی ہوئی ہے، پاکستان نے افغانستان، ایران، ازبکستان، تاجکستان و دیگر ممالک کے ساتھ جو نئے معاشی معاہدے کئے ہیں، ان معاہدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ریجنل کارپوریشن ڈیولپمنٹ این۔25 شاہراہ کا بھی اہم رول رہے گا، پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرنیوالی یہ مرکزی شاہراہ چمن سے لیکر کراچی تک تاحال سنگل ہے۔
چمن، کوئٹہ براستہ خضدار تا کراچی 813 کلو میٹر طویل این 25 مرکزی شاہراہ مقامی لوگوں کیلئے سکھ کے بجائے دکھ بنتی جارہی ہے، اس مرکزی شاہراہ پر روزانہ درجنوں حادثات رونما ہوتے ہیں اور کئی سال سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا آرہا ہے، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے خراب حالات اور بگڑتی امن و امان کی صورتحال ایک طرف ہے مگر دیگر واقعات سے زیادہ روڈ حادثات میں بلوچستان کے لوگوں کی جانیں جارہی ہیں۔
نیشنل ٹرانسپورٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے مطابق 2021 میں بلوچستان کے اندر 497 ٹریفک حادثات میں 318 افرادہلاک اور 634 افراد زخمی ہوئے جو کہ دیگر واقعات میں ہلاک ہونیوالے افراد سے 42 فیصد زیادہ ہے۔
محکمہ شماریات کے مطابق اسی سال بلوچستان کی مرکزی شاہراہوں پر 5100 حادثات ہوئے، جن میں 239 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 2263 افراد شدید زخمی اور 6490 افراد معمولی زخمی ہوئے۔
بلوچستان میں حادثات پر کام کرنیوالی غیر سرکاری تنظیم کے بانی نجیب یوسف زہری نے بتایا کہ جو حادثات سرکاری طور پر رپورٹ ہوتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے، بلوچستان کے وسیع و عریض رقبہ کی وجہ سے حادثات ہونے کی صورت میں رپورٹ نہیں کرسکتے، اکثر حادثات میں جانی نقصان کی صورت میں لوگ لاشوں کو لیکر اسپتال کے بجائے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں یا زخمیوں کا مقامی سطح پر علاج کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر حادثات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
اسی مرکزی شاہراہ پر نجیب زہری خود بھی ایک حادثے کا شکار ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں نے لوگوں کو آگاہی دینے اور روڈ حادثات میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے حوالے سے کچھ نوجوانوں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی، نجیب زہری کی ٹیم مختلف اخبارات اور مقامی انتظامیہ کے تعاون سے شاہراہوں پر ہونیوالے حادثات کے اعداد و شمار جمع کرتی ہے۔
اس غیر سرکاری تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 کے 8 ماہ کے اندر 7787 حادثات بلوچستان کی مرکزی شاہراہ پر رونما ہوئے، ان میں 1005 اموات اور 9666 افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ اس کے برعکس سرکاری اعداد شمار کو دیکھا جائے تو 495 حادثات میں 315 افرادہلاک اور 575 افراد زخمی ہوئے۔
تاہم مقامی میڈیا اور آزاد مانیٹر نے بلوچستان میں 10 سال کے دوران پیش آنیوالے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 8 ہزار کے لگ بھگ بتائی ہے۔
اس مرکزی شاہراہ پر روڈ میں اموات ہونا معمول بن گیا ہے، بڑے پیمانے پر پیش آنے والے ان حادثات کی وجوہات جاننے کیلئے 2020 میں حکومت بلوچستان کی بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ روزانہ 8 ہزار سے زائد گاڑیاں بلوچستان کی شاہراہوں سے گزرتی ہیں، ان گاڑیوں کی حد رفتار اور دیکھ بھال کیلئے ہائی وے پولیس کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں۔