کوئٹہ سے سیاسی و سماجی کارکنان بلال بلوچ، فواد بلوچ اور دیگر نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجھتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کے لوگ،خاص تعلیم یافتہ نوجوان سب کچھ دیکھ رہے ہیں، مگر قبضہ گیر کو سوچنا چاہیے کہ یہ انکے سارے تھیٹر نما کردار انھیں اور بلوچ پر امن جد وجہد کو کہاں کھڑا کردینگے، مگر ایک شے واضح ہے کہ بلوچوں کی لہو کا سیلابی ریلہ اپنا راستہ ہر سو بناتی ہے جبری طور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے کراچی سمیت مقبوضہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں قوم کا ریاست کے خلاف بھرپور نفرت کا اظہار دیکھنے کو آرہے ہیں جو اس بات کی غمازی ہے کہ بلوچ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے ہر محاذ پر ہر صورت پرامن جد وجہد کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکی ہے
انہوں نے کہا کراچی پریس کلب،اسلام آباد پریس کلب کے سامنے انصاف کے لیے آواز بلند کی مگر مجال ہو کہ خود کو حق کی بات کہنے والے صحافیوں اور ایوان میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو زرہ برابر بھی ماؤں بیوی بیٹیوں کا التجا سنائی دی، میڈیا یا انسانی حقوق کے ادارے حرکت میں آجائیں اور دیکھ پائیں کہ ایک ماہ کی ایک بیٹی،ایک بیوی کا درد کا تڑپ کیا ہے۔
پاکستان جیسی ریاست میں انصاف تو دور کی بات ہے حق کی بات کرنے والے کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنا ہی ممکنات میں شامل نہیں بہر حال انصاف کے لیے احتجاج کی کوشش ضرور بلوچ سماج میں عورت کے مضبوط کردار کی نشاندھی ہے کاش کہ دنیا میں حقیقی ادارے ہوتے جو کاغذوں پر موجود اپنی سولوگن کو حتمی شکل دے سکتے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مارچ کے ماہ کا سورج ریاستی آپریشن کی بربریت سے جوں ہی غروب ہوا تو چند گھنٹوں بعد اپریل کے صبح کی کرنیں بھی ریاستی ظلم و جبر کو لے کر طلوع ہوئیں کیچ کے گردونواح میں آپریشن کو طول دیکر فورسز نے آرمی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے۔