رکن صوبائی اسمبلی واجہ ثناء بلوچ نے مادری زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں ہماری مادری زبان بلوچی ہمارے تعلیمی اداروں میں بطور ایک مضمون کی حیثیت سے شامل ہوئی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں پہلے ہی بلوچی شعبہ قائم کیا گیا ہے۔بنیادی سطح یعنی آٹھویں جماعت تک بھی اسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ سیکنڈری اداروں میں اگر چہ کہیں کہیں بلوچی زبان نصاب میں احکامات کے مطابق شامل کی گئی ہے لیکن ان احکامات کو ابھی تک سنجیدگی سے لاگو نہیں کیا گیا ہے۔اگرچہ ہمارے کالجوں میں بھی ہماری زبان متعارف ہوچکی ہے لیکن سیکنڈری سطح میں بھی اسے لازمی قرار دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ٦٥٠٠ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے ٢٠٠٠ زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے ایک ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ یہ دن منانے کا مقصد ان زبانوں کی طرف توجہ دلانا ہے جن کی بقا خطرے میں پڑی ہوئی ہے-
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری زبان کو تعلیمی اداروں تک پہنچانے میں اور علم و ادب کے لحاظ سے فروغ دینے میں جہاں سرکردہ ادیبوں اور شاعروں نے اہم رول ادا کیا۔ وہیں ہماری ادبی تنظیموں نے بلوچی زبان کو اپنا حق دلوانے میں کافی جدوجہد کی۔ ادب میں بھی اضافہ کیا، ادبی محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں۔بلوچی ادبی سرمایہ میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے۔لیکن اب اس پہچان کو زندہ رکھنے کیلئے ہماری ان ہی ادبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ ہمارے قلم کاروں کو بھی بھرپور رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ آج مادری زبان کے عالمی دن پر عہد کرلیں کہ ہم اپنی مادری زبان کو فخر کے ساتھ روزمرہ کی زندگی میں اپنے گھروں اور گھروں سے باہر بھی بول چال کے استمال میں لائیں۔ انہوں نے نسل نو پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی زبان کی اہمیت سمجھ کر اعلیٰ مقام دلانے میں ترجیحی بنیادوں پر اپنا اہم کردار ادا کریں تاکہ یہ زبان ترقی کے منازل سے ہمکنار ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ ”بلوچی زبان” مادری زبان کی حیثیت سے ہماری پہچان ہے۔ ایک قوم کی حیثیت اور حیت کا انصار اس کی مادری زبان کی قوت پر ہے۔ ایک قوم کے زندہ ہونے اور رہنے کی دلیل اس کی مادری زبان ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علم حاصل کرنا اور مختلف زبانیں سیکھنا آپسی تال میل اور ترقی کے لیے ضروری ہے مگر اس کی بنیاد اپنی مادری زبان ہے۔اور جنون کی حد تک مادری زبان کی ترقی اور تجدید کے لیے کام کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ حالیہ مردم شماری میں زبانوں کی بنیاد پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے ہمیں من حیثت القوم صرف بلوچ کا انتخاب کرنا ہے کیونکہ ہماری زبان کے ساتھ ہی ہمارے قومیت کی شناخت بھی بلوچ ہے ہمیں ملکر اس قومی احساس کو نسل نو میں بیدار کرنے کی ضرورت ہے-