سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ بلوچستان سے 70 کروڑ روپے کے عیوض سینیٹرز منتخب کرکے انہیں ایوان بالا کی کرسی پر بیٹھایا جائیگا تو وہاں صوبے کی نمائندگی کہاں ہوگی ،سینیٹ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جعلی لوگوں کی موجودگی کے نتیجے میں بلوچستان کی 80 فیصد آبادی خط غربت کی لکھیر سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔
بلوچستان کے لوگوں نے جعلی قیادت اور جبر کو قطعاً تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے دیگر صوبوں کے لوگوں کو بھی فیصلہ کرنا چائیے کہ ان کے آئندہ مستقبل کے فیصلے کون کریگا۔یہ بات انہوں نے ہفتے کے روز گورنمنٹ کالج لاہور میںہونے والے ری ایمیجننگ پاکستان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
سیمینار سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد ،سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر، سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد خان ہوتی، جگنو محسن ودیگر نے بھی خطاب کیا۔نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے پہلے وزیر تعلیم میر گل خان نصیر جو ایک دانشور اور تاریخ دان تھے وہ بھی گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کیلئے بھی اعزاز کی بات ہے کہ وہ نامور لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بلوچستان کا مقدمہ پیش کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے لوگوں نے جعلی قیادت اور جبر کو قطعاً تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے پنجاب اور لاہور کے لوگوں کو بھی فیصلہ کرنا چائیے کہ ان کے آئندہ مستقبل کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ یا عالمی سامراج کریں گے یا ووٹر ، پارلیمنٹ اور اس صوبے اور شہر کے لوگ کریں گے۔ انہوںنے سیمینار میں شریک سیاسی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے سیاسی لوگوں اور ووٹرز کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس ملک کو اسٹیبلشمنٹ چلائے گی یا منتخب پارلیمنٹ چلائیگی انہوں نے کہاکہ ملک میں کسٹم کو سمگلرز ، تھانہ کو کرمنل ، تعمیراتی شعبہ کو ٹھیکیدار ، پارلیمنٹ کو سرمایہ دار چلارہے ہیںسیاسی جماعتوں پر ٹھیکیدار حاوی ہیں اور لوگ گھاس کھارہے ہیں دس کلو آٹے کے تھیلے کیلئے چھ چھ لوگ مررہے ہیں۔
ایک آمر جنرل ایوب خان نے دس سالوں تک عوام کو فیلڈ مارشل ء ہونے کی گھاس کھلائی جنرل ضیاء نے اسلام اور جہاد کی گھاس کھلائی کچھ لوگوں نے کہا کہ گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے اور کچھ اب کہہ رہے ہیں کہ گھاس کھائیں گے ایٹم بم بچائیں گے اور عوام کی زندگی گھاس کھاکر ہی گزرگئی۔انہوں نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کہیں بھی بلوچستان کی نمائندگی نہیں ہے بلوچستان کے ایک شخص سے پیسے لیکر اسے سینیٹر بنایا گیا جس سے ویڈیوز بنانے کا کام لیا جارہا ہے صوبے کے نام پر جعلی شخص کو ڈپٹی اسپیکر کے منصب پر بیٹھایا گیا جس سے پارلیمنٹ میں افراتفری پیدا کرنے کا کام لیا گیا ایک اور مذہبی دیکھنے والے رکن قومی اسمبلی سے عدالت کیخلاف قرار داد پیش کرائی گئی جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بلوچستان کی نمائندگی کس قسم کے لوگوں کو دی جاتی ہے ۔
بلوچستان کی حقیقی سیاسی قیادت کو ریاست کا یہ رویہ قطعاً قبول نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں راتوں رات ایک پارٹی بنائی گئی اور جب یہ پارٹی اپنی طبی موت مرنے کے قریب ہے تو وہاں سے سیاسی مخبروں کی دوسری سیاسی جماعتوں میںٹرانسفر پوسٹنگ کی جارہی ہے جن لوگوں نے بلوچستان کے قدرتی وسیلہ ریکودک صوبے کے ساحل وسائل کو فروخت کیا انہیں دوبارہ بلوچستان کے لوگوںپر مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جسے بلوچستان کے لوگ کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ جب بلوچستان سے 70 کروڑ روپے کے عیوض سینیٹرز منتخب کرکے انہیں ایوان بالا کی کرسی پر بیٹھایا جائیگا تو وہاں صوبے کی نمائندگی کہاں ہوگی ؟ بلوچستان سے ایسے لوگ بھی سینیٹر منتخب ہوئے ہیں جنہوںنے اپنی پوری زندگی میں ایک سیکنڈ بھی سیاسی عمل میں نہیں گزار ا ہے۔
انہوںنے کہا کہ سینیٹ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جعلی لوگوں کی موجودگی کے نتیجے میں بلوچستان کی 80 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارہی ہے ، بلوچستان یونیورسٹی تین ماہ سے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی ہے کیونکہ ایک خاص ذہنیت بلوچستان کے لوگوں کو ناخواندہ رکھ کر اپنے سیاسی مخبروں کے ذریعے وہاں راج کرنا چاہتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ راتوں رات جعلی سیاسی و قبائلی قیادت کو بلوچستان پر مسلط کرنے سے معدنیات سے غنی صوبے کے ہزاروں بچے غربت کی وجہ سے اسکولوں سے باہر ہیں۔
جو ہمارے لیے باعث تشوش دکھ اور غم کی بات ہے کہ ہماری آئندہ تین چار نسلیں ناخواندہ رہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہاں واویلا مچایا گیا کہ سی پیک منصوبے کے تحت 52 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی مگر گوادر جو سی پیک کا سرچشمہ ہے وہاں کے لوگ بنیادی ضروریات کیلئے دھرنا دیتے آرہے ہیں وہاں کی سیاسی قیادت جیلوں میں پڑی ہے ان کی ضمانت نہیں ہونے دی جارہی ہیں،انہوں نے سوال کیا کہ اگر واقعی بلوچستان کو اس فیڈریشن کا حصہ سمجھا جاتا ہے کہ تو گزشتہ چار ہزار دنوںسے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کوئٹہ اور کراچی کے پریس کلبز کے سامنے احتجاج پر بیٹھے ہیںان چار ہزار دنوں میں ریاست کا کوئی ذمہ دار شخص کیوں ان کے پاس نہیں گیاکیوں کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
کہ ملک کے 47 فیصد رقبہ پر محیط بلوچستان کو طاقت کے ذریعے چلایا جائیگا بلوچستان میں آئین اور قانون کی عملداری نہیں ہے ۔سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیر کرد نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سیاست میں اداروں کی مداخلت آج بھی موجود ہے،وفاقی جماعتیں آج بھی اقتدار میں آنے کیلئے مقتدرہ کا کندھا استعمال کررہی ہیں،بلوچستان کو آج بھی کالونی کادرجہ دیا گیا وہاں حکومتیں مسلط کی جاتی ہیںانہوںنے کہاکہ بلوچستان کیساتھ ہونے والے مظالم کی تحقیقات کیلئے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے ، انہوںنے سوال کیا کہ بیرون ملک آنے والی امداد کا کتنا حصہ عوام پر خرچ کیا گیا ہے، سیاسی جماعتیں اقتدار اور ذاتی مفاد کیلئے مصلحت کا شکار ہیں اور عوام ان کے پیچھے دوڑ رہی ہے جو ایک قومی المیہ ہے۔