بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) نے کہا ہے کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے لاپتا افراد کے معاملے اور اس کے دیگر مطالبات کو فوری طور پر حل نہ کیا تو وہ حکمران پی ڈی ایم اتحاد سے علیحدگی پر غور کرے گی۔
بی این پی ایم کے سینئر نائب صدر عبدالولی کاکڑ اور سیکریٹری جنرل واجہ جہانزیب بلوچ نے یہ انتباہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر پارٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف لگائے گئے ٹوکن بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
وزیر مملکت ہاشم نوتیزئی، رکن صوبائی اسمبلی نصیر احمد شاہوانی، اختر حسین لانگو، ثنا بلوچ، میر اکبر مینگل، احمد نواز اور شکیلہ دہوار نے ٹوکن بھوک ہڑتال کی۔
بی این پی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پارٹی کے وفد نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران انہیں صوبے کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کو یقین دلایا تھا کہ وہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کوئٹہ کا دورہ کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک صوبائی وزیر پر دو افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے جبکہ فورسز مبینہ طور پر سیاسی کارکنوں کو غائب کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ خواتین کو بھی ان کے گھروں سے اٹھایا جا رہا ہے۔
عبدالولی کاکڑ نے کہا کہ ’اگر یہ صورت حال جاری رہی تو پارٹی اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کے بعد اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی حکومت کو ہٹانے کے لیے بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے میں تاخیر نہیں کرے گی۔
انہوں نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہوئے ماحل بلوچ پر قائم بے بنیاد مقدمات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی آر ختم کرکے اسے فوری طور پر رہا کیا جائے، وفاقی اور صوبائی حکومت نے صوبے کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو بہتر بناکر پارٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد نہ کیا تو ہم بہت جلد پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلا کر وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے اور بلوچستان حکومت کو اپنی حمایت ختم کردیں گے