بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی نظر آتش کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک منظم سازش کے تحت بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کے عمل معاشرے میں مزید سماجی بگاڑ اور بلوچ نوجوانوں کے تعلیمی تسلسل میں رکاوٹ کا باعث بنے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز بلوچستان میں کیچ کے علاقے دازن میں ایک ہائی اسکول کو نظر آتش کیا گیا جس سے اسکول کی عمارت سمیت تمام انفراسٹرکچر جل کر راکھ بن گیا۔
اس کے علاوہ گزشتہ ماہ ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ کے علاقے الندور میں کلکشان اسکول کو آگ لگائی گئی اور انفراسٹرکچر کو جلا کر راکھ بنایا گیا۔ رواں ماہ ہی پسنی میں ایک اسکول کو آگ لگایا گیا جس سے اسکول کی عمارت اور دیگر اشیا خاکستر ہو گئی۔ اس طرح کے عمل بلوچستان بھر میں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور بلوچ نوجوانوں میں خوف و ہراس کا باعث بن رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کا شمار ایک ایسے خطے کے طور پر کیا جاتا ہے جہاں خواندگی کی شرح نہایت ہی کم اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تسلسل کے ساتھ نشہ اور دیگر غیر معاشرتی سرگرمیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں اسکولوں کی حالت نہایت ہی مخدوش اور چند محدود تعلیمی ادارے فعال ہیں۔
حکومتی غیر سنجیدگی سے جہاں تعلیمی ادارے بند ہیں تو دوسری جانب ایک منظم سازش کے تحت مختلف اضلاع میں فعال تعلیمی اداروں کا نظر آتش کیا جا رہا ہے اور جدید تعلیمی نظام سے بلوچ نوجوانوں کو دور رکھا جا رہا ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ اس طرح کے عمل نوجوان نسل میں خوف و ہراس کا باعث بن کر نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی ایک سازش ہے۔ ہم حکومت اور تمام مقتدر قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس طرح کے عمل کی بیخ کنی کےلیے عمل اقدامات کی جائے اور اس میں ملوث تمام عناصر کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔