بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ آواران زون کی جانب “مہرگڑھ لٹریری اینڈ ایجوکیشنل فیسٹیول” آواران انتظامیہ کہ دباؤ اور رکاوٹوں کے باوجود کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا، بی ایس ایف آواران زون کی جانب ادبی اور تعلیمی کلچر کو فروغ دینے کیلئے مہرگڑھ لٹریری اینڈ ایجوکیشنل فیسٹول کے نام سے 8 جولائی کو ایک سیمینار بمقام گورنمنٹ بوائز ماڈل ہائی سکول آواران نیابت میں منعقد کرنے جا رہا تھا لیکن آواران انتظامیہ اور دیگر قوتوں نے علم و ادبی پروگرام کو ناکام کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے بی ایس ایف کے اراکین پر دباؤ ڈالا گیا لیکن ان تمام تر رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود بلوچ اسٹوڈنٹس پختہ ارادوں اور حوصلوں کے ساتھ علم و ادبی پروگرام کو کامیابی کے ساتھ منعقد کرنے میں کامیاب رہے۔
خیال رہے آٹھ جولائی میں منعقد ہونے والے پروگرام پر پابندی کے خلاف بی ایس یف آواران زون کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی آواران پریس کلب کا سامنے نکالی گئی جن میں کثیر تعداد میں بلوچ طلباء، طالبات اور دیگر تمام مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی اور آواران انتظامیہ کی تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف شدید نعرہ بازی کرکے آواران کے ڈپٹی کمشنر کمپلیکس کے سامنے دھرنا دیا گیا۔
اتظامیہ اور دیگر زرائعے کی جانب مسلسل دباؤ اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ سے 8 جولائی کو منعقد ہونے والے مہرگڑھ لٹریری اینڈ ایجوکیشنل فیسٹیول کو کینسل کرکے 9 جولائی کو آواران ہار بازار میں کمیونٹی ھال میں سیمینار کو کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا۔ بلوچ طلباء کی ان رکاوٹوں کے سامنے جدوجہد اور کوششوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جدوجہد ہی کامیابی کی نشانی ہے۔
سیمینار کا پہلا سگمنٹ پینل ڈسکشن “Historical Prospective of students politics” تھا، جن میں موڈیریٹر بْی ایس ایف کے مرکزی سینٹرل کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر لطیف لعل جبکہ اسپیکر بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر شکیل بلوچ، بی ایس او پجّار کے سی سی ممبر شفیق مہر تھا۔
مزکورہ موضوع پر بی ایس ایف کے چیئرمین ڈاکٹر شکیل بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کی ترقی میں نوجْوانوں اور طلباء کا اہم کردار رہا ہے، بلوچ اسٹوڈنٹس سْیاست کی تاریخ کی کڑیاں سولویں اور ستارویں صدی اور اس سے پرانے ادوار سے ملتے ہیں، لیکن یورپ کی انقلاب پر اگر نظر دوڑائیں تو ان میں طلباء کی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، 1815 کو جرمن میں جینا یونیورسٹی کے طالب علموں نے برسچن پارٹ کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ انہوں نے نیشنلزم کے نظریے پر اپنی جدوجہد کو جاری کرتے ہوئے اپنے اقوام کے اندر قومی شعور کو اجاگر کردیا۔ انکی جدوجہد نے یورپ کے دیگر اقوام کے نوجْوانوں کے اندر قومی شعور کو بیدار کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرکے انہیں متاثر کر دیا۔ جب قومی شعور بیدار ہوا تو مختلف اقوام نے بادشاہی اور جاگیرداری نظام کے خلاف بغاوت کرنا شروع کر دیا۔
کردستان کی تحریک پر اگر تبصرہ کی جائے تو کردستان کے سرکردہ رہنما عبداللّہ اوجلان نے کرد نوجْوانوں کو اکٹھا کر اپنے قومی تشخص اور شناخت اور کردستان کی آزادی کیلئے کردستان ورکر پارٹی بنائی جو کردستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ 1960s کو ویتنام اور امریکہ کے درمیان لڑنے والی جنگ کے خلاف امریکہ کے طلباء نے جنگ مخالف تحریک اور احتجاجی ریلیوں کا آغاز کیا، ان میں اسٹوڈنٹس فار ڈیموکریٹک سوسائٹی نے اہم کردار ادا کیا، انہوں نے واشنگٹن ڈی سی سے ایک احتجاجی ریلی نکالی جن میں عوام نے بڑھ کر جنگ مخالف تحریک میں حصّہ لیا، بالآخر امریکہ اور ویتنام کے درمیان ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی ہوئی اور ویتنام نے امریکہ کی جنگی قیدیوں (POWs) کو رہا کیا گیا۔ اگر ہم بلوچ اسٹوڈنٹس سْیاست کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بی ایس او کی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بی ایس او بلوچ سْیاست کی روح کی مانند ہے۔
شفیق مہر نے اسٹوڈنٹس یونین کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے کہ 1984 کو ضیا کی دور حکومت میں طلبا یونین پر اس لئے پابندی لگائی گئی کہ طلباء کی طاقت کو ختم کیا جا سکے۔
سیمینار کے دوسرے سیگمنٹ میں بلوچستان میں تعلیمی مسائل” پر بحث کی گئی جن کا موڈیریٹر بی ایس ایف کے سی سی ممبر ڈاکٹر لطیف لعل، گورنمنٹ گرلز انٹر کالج ماشی کے پرنسپل امداد امر صاحب، ہائی سکول پیراندر کے ہیڈ مسٹر الٰہی بخش صاحب، جے پی ایس اسکول نیٹورک کے ڈائریکٹر پرواز حکیم بلوچ نے تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا، شرکاء کی جانب سے سوالات کا تفصیل سے جوابات دیئے گئے۔
سیمینار کے تیسرے سگمنٹ “بلوچستان میں گرلز ایجوکیشن کے مسائل” پر پینل ڈسکشن کی گئی جن میں موڈیریٹر بانک اکیلہ بلوچ تھی، جبکہ اسپیکر بانک دروشم بلوچ، بانک گل نور بلوچ، بانک ستارہ بلوچ، نور بانک بلوچ نے گرلز ایجوکیشن کے مسائل پر تفصل سے اپنے خیالات کی اظہار کی گئیں۔
سیمینار کا چوتھا سیگمنٹ اسپیچ پر مشتمل تھا جن میں امان اللّہ قاضی صاحب، بانک عافیہ جی ایم، مدثر گلاب اور بی ایس ایف کی مرکزی سینٹرل کمیٹی کے ممبر فضل بلوچ نے خطاب کیا گیا۔
سیمینار کے پانچویں سگمنٹ شعر اور شاعری پر مشتمل تھا جن میں آدم حقانی اکیڈمی کے صدر کلیم قادر بلوچ، جنرل سیکریٹری مقبول وفا صاحب، ڈپٹی جنرل سیکریٹری دلپل شوہاز بلوچ، نائب صدر عارف اسلام بلوچ، کفایت قاضی صاحب، مختیار مہر بلوچ، شاہنواز رھگوز، نعیم رہچار، گمشاد شمس بلوچ، شمیم نصرت صاحب، بی ایس ایف کے مرکزی چییرمین ڈاکٹر شکیل بلوچ، حمل دولت بلوچ، امان رحیم بلوچ، آصف آوارانی، حبیب گفتار بلوچ، توفیق مہر، مجاہر مہر، یاسر بلوچ، الیاس رہچار اور زبیر بلوچ نے مادری زبان بلوچی کے اشعار پڑھ کر سیمینار کو زیب تن کردیا۔
سیمنار کے چھٹی سگمنٹ “میوزیکل پروگرام تھا، جن میں بلوچی زبان کے گلوکار استاد سراج داد، استاد خالق داد، استاد عید محمد بلوچ، وسیم حکیم بلوچ، نوراللّہ نور بلوچ، عوض نور بلوچ، ساکم بشیر قمبرانی، الیم بلوچ نے اپنے خوش الحان آواز سے دیوان کو خوبصورت بنا دیا،
سیمینار میں بی ایس ایف کے مرکزی سی سی ممبر فضل بلوچ اور بی ایس ایف کراچی یونٹ کے جنرل سیکریٹری مجاہد مہر نے اسٹیج کو سمبھالا جبکہ شعر اور شاعری کے سگمنٹ میں بلوچی زبان کے شاعر دلپل شوہاز بلوچ نے اسٹیج سیکریٹری کا کام سر انجام دیا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ آواران زون کی جانب آواران جیسے پسماندہ علاقے میں تعلیمی اور ادبی فیسٹول کو کامیابی کے ساتھ انعقاد کرنا بلوچ طلباء کی جہد مسلسل کا ثمر ہے۔ جنہوں نے تمام تر رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود سیمینار کو کامیابی کے ساتھ انعقاد کیا گیا،
بجلی، پانی اور دیگر تمام سہولیات کی عدم فراہمی کے باوجود گرمی، بھوک، پیاس کے کیفیت میں علم وادبی فیسٹیول میں شرکت کرنا آواران کے نوجْوانوں کی علم دوستی کا واضح ثبوت ہے۔