(بلوچستان افیئرز/لندن ڈیسک)
یونیورسٹی آف تربت انتظامیہ کی جانب سے سمسٹر فیس کو بے تحاشہ اضافہ ، ہاسٹل فیس کو ایک ہزار سے بڑھا کر پانچ ہزار کردیا گیاہے، اور ٹرانسپورٹ فیس کو 250 روپے سے بڑھا کر ہر سمسٹر میں پانچ ہزار کر دیا گیا ہے۔
اس کے ردعمل میں یونیورسٹی کے طلباء سمیت دیگر اسٹوڈنٹس طلباء تنظیموں کے تحفظات ہیں، انکا کہنا ہے کہ بلوچ طلباء کو ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیم سے دور رکھنے کی ایک سازش کیا جارہا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ۔۔۔
تربت یونیورسٹی کے شعبہ نشر و اشاعت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تربت یونیورسٹی نے علاقے کی معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پچھلے دس سال میں فیسوں میں صرف معمولی اضافہ کیا ہے۔
اس اضافہ کے باوجود یونیورسٹی آف تربت کے فیس بلوچستان کے دیگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے مقابلے میں نسبتا مساوی یا کم ہیں۔یونیورسٹی آف تربت کے فیس تقریبا 2000 روپے ماہانہ ہے جوکہ اعلی تعلیم کے لئے ایک معقول رقم ہے۔ فیسوں میں حالیہ اضافہ صرف اور صرف نئے آنے والے پہلے سمسٹر کے طلبہ و طالبات کے لئے نافذالعمل ہوگا جبکہ دیگر سمسٹر کے طلبہ وطالبات کے لئے پرانا فیس اسٹرکچر لاگو ہوگا جو دو برابر اقساط میں جمع کئے جا سکتے ہیں۔
فیسوں میں معمولی اضافہ کرنے کا فیصلہ یونیورسٹی کے اکیڈمک کونسل سمیت دیگر فیصلہ ساز آئینی اداروں کی متفقہ منظوری سے کیاگیا ہے جن کے ممبران میں یونیورسٹی انتظامیہ کے علاوہ ڈینز، فیکلٹی ممبران اور مختلف تعلیمی شعبہ جات کے سربراہان شامل ہیں۔
اس وقت پہلے سمسٹر کے 70 فیصد طلبہ وطالبات اپنے فیس جمع کراچکے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ یونیورسٹی کے تقریباً 80 فیصد طلبہ و طالبات کو HEC Need Based، BEEF اور Ehsaasسمیت دیگر اسکالرشپس کے ذریعے مالی معاونت فراہم کیاجا رہا ہے۔ تربت یونیورسٹی غریب اور میرٹ پر آنے والے طلبہ و طالبات کو اپنے انڈومنٹ فنڈ سے میرٹ اسکالرشپ بھی دے رہی ہے۔
تربت یونیورسٹی ملک کا واحد تعلیمی ادارہ ہے جو سوسے زائد کلومیٹر پر واقع ہوشاب اور ناصرآباد جیسے دور دراز علاقوں کے طلبہ و طالبات کے لئے روزانہ کی بنیاد پر ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پچھلے دو سالوں سے تربت یونیورسٹی سمیت تمام جامعات کی سالانہ گرانٹ میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف اس ریجن میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی وجہ سے صوبائی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ گرانٹ میں بھی کمی کی گئی ہے۔ ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر اور صوبے کے دیگر سرکاری یونیورسٹیوں کے مالی مشکلات کو دیکھ کر تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ اور آئینی اداروں فائنینس اینڈ فلاننگ کمیٹی، اکیڈمک کونسل اور سنڈیکیٹ نے جامعہ تربت میں مالی نظم و ضبط اورکفایت شعاری کوبرقرار رکھنے کے لئے اہم اقدامات اٹھائے ہیں اور یونیورسٹی کی مجموعی اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ بجٹ میٹنگ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن سے یونیورسٹی آف تربت کا سالانہ گرانٹ بڑھانے کی گزارش بھی کی گئی ہے۔
اس بارے میں طلباء تنظیموں کے تحفظات
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن،بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی تربت زون کا مشترکہ اجلاس منعقد اس بارے میں منعقد ہوا، اجلاس میں یونیورسٹی آف تربت انتظامیہ کی جانب سے سمسٹر فیس کو بے تحاشہ اضافہ کے خلاف سخت ردعمل دیکا گیا۔ اجلاس نے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے تمام فیس کو یکسر رد کردیا اور انتظامیہ کے عمل کو طلباء دشمن پالیسی کرار دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی آف تربت اس وقت شدید مالی بحران کا شکار بن چکا ہے اس کا وجہ یونیورسٹی انتظامیہ کے شاہ خرچیوں اور کرپشن نے آج یونیورسٹی کو مالی و انتظامی طور پر مفلوج کردیا ہے۔
تربت یونیورسٹی غریبوں کا تعلیم گاہ ہے تربت یونیورسٹی انتظامیہ کو قومی ادارے کو پیسے کمانے کا فیکٹری بنانے نہیں دیں گے۔
انہوں نے کیا یونیورسٹی آف تربت کے فیس کے مسئلے پر تینوں تنظیموں کا مشترکہ جہد مسلسل، احتجاجی مظاہرے ہوں گے، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام اسٹوڈنٹس سمسٹر فیس، ہاسٹل فیس، ٹرانسپورٹ فیس و دیگر بڑھتے ہوئے فیس کو جمع نہ کریں، فیصلہ کیا گیا کہ تحریک جب تک جاری رہے گا تب تک یونیورسٹی انتظامیہ اپنے ناجائز فیس کا فیصلہ واپس نہیں لے گا۔
دوسری جانب ہفتے کے روز بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس تربت کے سرگرم رہنما بی ایس او پجار کے ذونل صدر باھوٹ چنگیز، بساک تربت زون کے جنرل سیکرٹری حمل بلوچ اور بی ایس او تربت ذون کے صدر کرم خان بلوچ نے ساتھیوں کے ہمراہ تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ تربت نے سمسٹر فیسوں میں اچانک ہوشربا اضافہ کرکے عام اور متوسط طلبہ کے لیے تعلیم کے دروازے بند کردیے ہیں، اسٹوڈنٹس الائنس میں شامل تنظیمیں ایک ایسے سنگین قومی و اجتماعی مسئلے کو پیش کرنے کیلئے پریس کانفرنس پر مجبور ہیں جس نے تربت سمیت مکران کے بیشتر علاقوں کے غریب طلبا و طالبات کو اپنی گرفت میں جھکڑا ہوا ہے۔
ہمیں اْمید ہے کہ صحافت جیسے مقدس شعبے سے تعلق رکھنے والے آپ حضرات ہماری آواز کو گھر گھر پہنچانے کی زحمت کریں گے۔
سب کے علم میں ہے کہ پاکستان کا سب سے پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان ہے جہاں معاشی، تعلیمی، سماجی و معاشرتی ترقی کے تمام دروازے بند نظر آتے ہیں۔ اس صوبے کے بیشتر باشندے معاشی پسماندگی و تنگدستی کے ہاتھوں اتنے جھکڑے ہوئے ہیں کہ تعلیم جیسے زیور سے بھی مجبوراً ہاتھ دو کر بیٹھ گئے ہیں۔
اسی معاشی اْتار چڑاؤ کے پیشِ نظر اس سرزمین کے وارث اپنے بچّے اور بچیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے دوسرے بڑے شہروں میں بھیجنے کی زکت نہیں رکھتے۔ بیشتر والدین اپنے بچوں کو یا تو کسی مقامی جامعہ میں داخلہ دلواتے ہیں یا بیرونِ ملک بھیج دیتے ہیں تاکہ مالی بحران سے چْٹکارہ پا سکیں۔ لیکن مقامی جامعات میں فیسوں کی حد درجہ اضافے سے تعلیمی معاملاتِ زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ اگر اس مسئلے کو فوری طور پر حل نہ کیا جائے تو آنے والے وقتوں میں تعلیم کی شرح مزید گِر سکتی ہے۔ کچھ وقت پہلے جامعہ تربت کے فنانس ڈیپارٹمنٹ نے اسپرنگ سیمسٹر 2023 سے نئے فیس اسٹرکچر کا اجرا کیا ہے جس میں سیمسٹر فیس، ہاسٹل فیس اور آمد و رفت فیس شامل ہیں۔
پہلے کی نسبت سیمسٹر فیس میں کچھ ڈیپارٹمنوں میں چار سے پانچ ہزار اور کچھ ڈیپارٹمنٹوں میں نو سے دس ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے جب کہ ہاسٹل فیس ایک ہزار سے بڑھا کر پانچ ہزار(ایک دفعہ) اور دو ہزار فی سیمسٹر کردی گئی ہے۔
دوسری جانب آمد و رفت کی فیس جو پچھلے کئی وقتوں سے 250 تھی، اسے بڑھا کر چار اور پانچ ہزار فی سیمسٹر کردی گئی ہے۔ دوسری جانب سوشل ساینسز کے ڈیپارٹمنٹس میں لیبارٹری فیس لینا بھی سمجھ سے باہر ہے کیونکہ ان ڈیپارٹمٹس میں لیب ورک نہیں ہوتا۔ اس حساب سے اب ہر طلبا کو پہلے کی نسبت آٹھ سے دس ہزار اضافی فیس جمع کرنا ہوگا جو کہ غریب طالبعلموں کے منہ پر تمانچے کی مانند ہے۔
اسی لیے تربت میں متحرک طلبا تنظیموں کے زونز یعنی بلوچ اسٹوڈنٹس ایکش کمیٹی تربت زون، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار تربت زون اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تربت زون نے مشترکہ فیصلہ کرتے ہوئے ایک الائنس سٹوڑنٹس الائنس تربت کے نام سے تشکیل دی جس کا بنیادی مقصد بلوچستان کی سب سے اہم ترین شہر تربت کو تعلیمی بحران سے چھٹکارہ دلا سکے۔
ہم نے اپنی ایک وفد جامعہ تربت کے رجسٹرار اور وائس چانسلر سے ملاقات کے سلسلے میں بھیج دیا تھا جسکا بنیادی مقصد اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کو پیش کرنا اور مطالبات کی منظوری کے بعد تعلیمی راہ سے معاشی رکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔ لیکن پرو وائس چانسلر نے ہمارے تمام مطالبات کو ایچ ای سی کی طرف سے فنڈز میں کمی، مہنگائی اور مالی بحران کا بہانہ بنا کر ماننے سے انکار کردیا۔
انکا کہنا تھا کہ تحریک جب تک جاری رہے گا تب تک یونیورسٹی انتظامیہ اپنے ناجائز فیس کا فیصلہ واپس نہیں لے گا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.