پزیر فتح
کسی علاقے کی ترقی کا انحصار وہاں کی سیاسی قیادت، وہاں پر بسنے والے لوگوں کی خداداد مہارتوں اور وہاں کے محافظوں کے حوصلے پر ٹِکی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پنجگور 1977 میں ضلع بننے کے بعد ایک بہت بڑی سیاسی قیادت کی فقدان میں رہا ہے۔ اس سْیاسی قیادت کی فقدان کے نتیجے میں وہاں پر بسنے والے لوگوں کی روز مرّہ زندگی کی بنیادیں خطرے میں پڑھ گئے ہیں۔ بیچارے پاکستان کے بِشتر سال آمرانہ دور میں گزرے ہیں، اُن سارے آمرانہ ادوار پنجگور میں پنجگور آمر کی طاقت اور سیاسی قیادت کے درمیان ہونے والی آنکھ مچولی سے پریشان رہا۔
قوموں پر آنے والے برے وقت کا دورانیہ بےشک مختصر کیوں نہ ہو لیکن اس کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ان اثرات سے نمٹنے کے لیے بڑے حوصلے اور قربانیوں کی ضرورت بھی پڑی ہے۔ بحثیت قوم ہم کسی بھی چیز سے بہت جلد اکتا جاتے ہیں چاہے وہ ایک کھیل یا کھلاڑی ہو, سیاستدان یا فوجی آمر ہو۔ پنجگور میں مولانا رحمت اللہ میڈیا سمینار سے ایک امید پیدا ہوسکتی ہے کہ پنجگور کے گونا گوں مسائل کا حل آئے گا۔ لیکن کب یہ واضح نہیں۔
بھاری دل سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے لیکن جتنا بھی حالات کا جائزہ لیا جائے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہمارے بس میں نہیں رہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہماری صلاحیتیں محدود ہیں۔
جسے آپ اشرافیہ یا حکمران طبقہ کہتے ہیں اُس کا معیار ہر لحاظ سے بہت پست ہے۔ اجتماعی سوچ کوئی اتنی اونچی نہیں۔اور ہمارے نصیبوں میں جو لیڈر ہیں وہ تو ڈنگ ٹپاؤ قسم کے رہنما ہیں۔ اپنا مفاد ہر ایک کو عزیز ہوتا ہے، انہیں بھی ہے لیکن انکی سوچ وہیں تک محدود ہے۔ کس کس کا نام لیں لگتا ہے سارے کے سارے ایک ہی قماش کے ہیں۔
تو پھر پنجگور سیدھا کیسے ہوگا،صیحیح راہ پہ کیسے آئے گا اور کون لائے گا ؟ لاکھ سوچتا ہوں، مجھے تو ان سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔ لیکن ہوا صرف اتنا ہے کہ معاشرے میں منافقت بہت پھیل گئی ہے۔ قول و فعل میں تضاد بڑھ گیا ہے۔ اور بد تمیزی اتنی بڑھ چکی ہے کہ عوام کی صحت برباد ہورہی ہے۔ ہمارا معاشرہ بری طرح بٹ چکا ہے۔ ایک سیاسی سماجی معتبروں کا پنجگور ہے اور ایک عوام کا ہے۔ ان دونوں میں کوئی میل نہیں۔ ہمارا معاشرہ منجمد ہو چکا ہے۔ عوام بھی ووٹ انہی کو دیتے ہیں جو اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں ناکہ اجتماعی مفادات۔ عوام میں اور خواہشات ہوں گئیں لیکن تبدیلی کی خواہش مرچکی ہے بس باڈر، نوکریاں، سولر بور ملیں۔ ہمارے بیشتر حصے کی خواہشات ان چیزوں تک محدود ہوچکی ہیں۔ اگر ہم پنجگور کے مسائل کو دیکھیں تو پنجگور بہت سی مسائلوں کے گرداب میں ہیں جہاں بنیادی انسانی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، نہ اسپتالوں میں ڈاکٹرز و ادوایات، نہ اسکولوں میں ٹیچرز اور طالبات کی موجودگی، امن و امان کی گھمبیر صورتحال، غربت، قحط وغیرہ وغیرہ جیسے گھمبیر حالات میں پھنس گیا ہے ہمارا پَنجْگُور۔
مگر دوسری طرف ایک استحصالی گروہ سے لوگ تنگ آتے ہیں تو دوسرے استحصالی گروہ کی گود میں جا کودتے ہیں۔ لیڈروں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے نعرے لگاتے رہیں گے لیکن استحصالی گروہوں کے نرغے سے باہر نہیں آئیں گے۔ یہ چیزیں کسی کو نظر نہیں آتی۔ عوام کو اپنے مسائل خود مل جل کر حل کر لینے ہونگے فرشتوں نے آ کے تو نظام ٹھیک نہیں کرنا۔
ان فرسودہ ماحول کو ختم کیا جائے تاکہ ایک نیا ماحول پیدا ہو۔ نئی روایات کے جنم سے کاروبار بڑھیں گے، امن و امان ہوگی عوام کے ذہنوں میں آزادی کی نئی رونق پیدا ہوگی ۔ پنجگور کی سیاسی وسماجی لوگ اجتماعی بصیرت پر لہٰذا اعتماد کریں اور روشن مستقبل کے راستے تلاش کریں۔