برطانیہ کی یونی ورسٹی آف برسٹل اور این ایچ ایس بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ کے سائنسدانوں نےخون کا ایک نیا گروپ دریافت کیا ہے جسے ’ای آر‘ سے پکارا جائے گا جو اب تک کا خون کا 44واں گروپ ہے۔ ساتھ ہی سائنسدانوں نے ایک نوزائدہ بچے کی موت کا تیس برس پرانا عقدہ حل کر لیا ہے۔
یہ ریسرچ امیرکن سوسائٹی آف ہیماٹالوجی کے رسالے ’بلڈ‘ میں شائع ہوئی۔ واضح رہے کہ ہیماٹولوجی خون اور اس کی بیماریوں سے متعلق طب کی شاخ کو کہتے ہیں۔
یونی ورسٹی آف برسٹل نے اپنی پریس ریلیز میں بتایا کہ یونی ورسٹی کے اسکول آف بائیوکیمسٹری اور این ایچ ایس بی ٹی کے انٹرنیشنل بلڈ گروپ ریفرینس لیبارٹری کے محققین نے بین الاقوامی تعاون سے مکمل ہونے والی اس تحقیق کی سربراہی کی۔ انہوں نے تیس برس پرانے ایک عقدے کو حل کرنے کی کوشش کی۔
معروف جریدے وائرڈ نے رپورٹ کیا ہےکہ برطانیہ میں ایک بچے کی پیدائش سے پہلے ڈاکٹروں کو خدشہ پیدا ہوا کہ بچے کی صحت کو خطرہ ہے۔ ایسی صورت میں سی سیکشن یعنی سرجری کے ذریعے بچے کی پیدائش وقت سے پہلےکر لی گئی۔ لیکن بچہ پھر بھی جانبر نہ ہوسکا۔ اس خاتون کے خون کے نمونوں کی برسٹل میں واقع لیبارٹری میں تحقیق سے پتہ چلا کہ اس کا خون کا گروپ انتہائی نادر قسم سے تعلق رکھتا ہے۔
’بلڈ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنسدان ای آر اے، ای آر بی اور ای آر 3 کی خون کی اقسام سے تو واقف تھے۔ لیکن اس تحقیق کے بعد سائنسدانوں نے خون کی دو نئی اقسام ای آر 4 اور ای آر 5 دریافت کی ہیں۔ جس کے بعد ایک نیا خون کا گروپ قائم ہو گیا ہے۔
نیشنل لائیبریری آف میڈیسن میں ہی چھپنے والی ایک اور رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی میں خون کے گروپوں کی شناخت سے پہلے زچگی کے دوران ایچ ڈی ایف این کی وجہ سے پچاس فیصد بچے ہلاک ہوجاتے تھے۔
برسٹل یونی ورسٹی کی پریس ریلیز کے مطابق یونی ورسٹی کے سیل بائیولوجی کے پروفیسر ایش ٹوئے کا کہنا تھا کہ اس ریسرچ سے ثابت ہوتا ہے کہ آج تک کی اس قدر تحقیق کے باوجود ایک چھوٹا سا خون کا خلیہ بھی ہمیں حیران کر سکتا ہے۔