ایران میں کرد خاتون مہسا امینی کی ملک کی ’اخلاقی پولیس‘ کے مبینہ تشدد سے ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ ساتویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔
مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کا دائرہ ایران کے 80 شہروں تک پھیل چکا ہے اور سرکاری اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک 23 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں سیاسی و سماجی کارکنوں کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔
بی بی سی فارسی کے مطابق ایران میں حکام چاہتے ہیں کہ مظاہروں سے متعلقہ خبریں عوام تک نہ پہنچ پائیں اور اسی غرض سے بڑے علاقے میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
ایران کے شمال مغربی شہر ساقیز سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی جمعے کو تہران کے ایک ہسپتال میں تین دن تک کومے میں رہنے کے بعد وفات پا گئی تھیں۔انھیں 13 ستمبر کو تہران میں ’گشتِ ارشاد‘ پولیس کے اہلکاروں نے جب گرفتار کیا تھا تو مبینہ طور پر اُن کے سر پر پہنے ہوئے سکارف سے کچھ بال نظر آ رہے تھے۔
’گشتِ ارشاد‘ ایرانی پولیس کے خصوصی یونٹ ہیں جنھیں اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور ’غیر مناسب‘ لباس پہنے ہوئے افراد کو حراست میں لینے کا کام سونپا گیا ہے۔
ایرانی قانون کے تحت، جو اسلامی شریعت کی ایرانی تشریح پر مبنی ہے، خواتین کو اپنے بالوں کو حجاب (سر پر سکارف) سے ڈھانپنا چاہیے اور چست لباس پہننے پر پابندی ہے تاکہ جسم کے خدو خال نمایاں نہ ہوں۔
اس واقعے کے عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ گرفتاری کے بعد مہسا کو پولیس وین میں مارا پیٹا گیا، تاہم پولیس ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مہسا کو اچانک دل کا دورہ پڑا تھا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.