عید کے پہلے روز بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا، مظاہرے میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت دوسرے سماجی اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی- احتجاجی مظاہرہ سے طاھر ہزارہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں جاری مظالم پہ خاموش ہیں، لیکن باجواہ یاد رکھے ان تمام مظالم کا ایک دن حساب لیا جائے گا، ظلم کے دن زیادہ نہیں ہوتے ہیں-
بیبرگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب سے ایک یوٹیوبر صحافی کی گرفتاری پہ آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا ہے، جبکہ بلوچستان میں ہزاروں افراد سالوں سے جبری لاپتہ ہیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے- بلوچستان یونیورسٹی سے جبری لاپتہ سھیل بلوچ کے بھائی نے کہا کہ اسکے بھائی کی عمر لکھنے پڑھنے کی ہے لیکن آج وہ زندان میں بند ہیں، اسکی زندگی کے بارے ہمیں شدید خدشات لاحق ہیں، خدارا اسے بازیاب کر کے زندگی جینے کا حق دیا جائے-
لاپتہ عبدالرشيد بلوچ اور آصف بلوچ کی ہمشیرہ سائرہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان عید کی خوشیوں میں جہاں لوگ اپنوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ہم اپنی ماؤں کو دیکھ نہیں سکتے، اپنے بھائی کے بچوں کو تکلیف اور دکھ میں دیکھ کر کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے، کوئی ہے جو ان ماؤں بچوں کو جواب دے سکے؟
ہماری ماں کہتی ہے کہ اسکے دل میں درد اٹھتا ہے، آپ کیسے حساب دو گے اس درد کا؟ ان بچوں کو کیا جواب دے سکو گے جو باپ کے پیار سے محروم ہیں، اور بے بس نظر آتے ہیں، ماہ گل جیسی بچی نے اس ریاست کا کیا بگاڑا ہے جو اس کے باپ کو اٹھایا گیا تب وہ چار ماہ کی بچی تھی، پوچھتی ہے کہ آنٹی میرے ابو کون ہیں؟ کہاں ہیں؟ کیوں ہمارے پاس نہیں ہوتے ہیں؟
احتجاج سے بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست اپنے بنائے ہوئے قوانین کو خود فالو نہیں کرتا تو ہم انکے غنڈہ گرد اداروں کی غنڈہ گردی پہ کیوں خاموش رہیں، ہم ان ریاستی سرپرستی میں موجود ڈیتھ اسکواڈز اور ریاستی کاسالیسوں کو بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ یہ بات جان لیں کہ انکو ریاست استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینکے گا- ہمارے بندے ریاستی اداروں نے اٹھائے ہیں جنکے تمام ثبوت موجود ہیں، ریاستی فورسز ان کو گولی مار کر قتل کر سکتے ہیں، ہاں البتہ ہم بدلے میں گولی نہیں مار سکتے پر امن جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے-
احتجاجی مظاہرے سے ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ ہمیں تمام جبری لاپتہ افراد کیلئے متحد ہوکر مشترکہ آواز اٹھانا چاہیئے- انہوں نے مزید کہا کہ یہاں صرف جاوید اقبال نہیں بلکہ کمیشن کے افراد سمیت تمام متعلقہ اداروں کے افراد کا رویہ لواحقین سے ایسا ہی رہا ہے- احتجاجی مظاہرے سے آغا زبیر شاہ اور دیگر افراد نے بھی خطاب کیا-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.