بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے گزشتہ دنوں زیارت میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں بے دردی سے قتل کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے درندگی کی انتہا قرار دے دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ فورسز کی جانب سے انکاؤنٹر کے نام پر مارے جانے والے 9 میں سے پانچ لاشوں کی شناخت ایسے لوگوں کے نام سے ہوئی ہے جنہیں پہلے ہی سے جبری گمشدگی کا شکار بنا دیا گیا تھا اور انکی بازیابی کیلئے لواحقین احتجاج کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ زیارت واقعے نے ظلم کی نئی داستان رقم کی ہے، پہلے ہی سے جبراً لاپتہ کردیے گئے لوگوں کو جعلی مقابلے میں مارنا ملکی آئین اور انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر بدترین تمانچہ ہے۔ اس سے پہلے بھی سی ٹی ڈی کی جانب سے لاپتہ بلوچوں کو جعلی مقابلوں میں مارکر ان کو تخریب کار ظاہر کیا گیا اور اب بھی یہ غیر آئینی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ترجمان نے کہا کہ زیارت میں مارے جانے والے 9 افراد میں سے ایک انجینئر ظہیر بلوچ کی گمشدگی پر بلوچستان ہائیکورٹ میں آئینی پٹیشن بھی دائر ہوچکی ہے جبکہ باقی لاشیں بھی ان لوگوں کی ہیں جو پہلے سے لاپتہ تھے۔ بلوچستان کے حالات کو بہتری کے بجائے ابتری کی جانب لے جایا جارہا ہے۔ یہاں کی سیاسی قوتوں کا ہمیشہ سے یہی بیانیہ رہا ہے کہ تشدد، جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں سے بلوچستان کا مسئلہ مزید گمبھیر ہوگا لیکن گزشتہ 74 سال سے طاقت کے زور پر بلوچ قومی سوال کو بزور طاقت کچلنے کیلئے انسانیت سوز جبر و تشدد کیا جارہا ہے۔ ترجمان بی ایس او نے آخر میں کہا کہ سپریم کورٹ پاکستان اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے زیارت میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے قتل پر ایکشن لیں اور باقی لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
Latest on YouTube