عراق میں مقامی حکام نے بدھ کے روز بتایا کہ اس کے خود مختار علاقے کردستان میں توپ خانے سے ہونے والی گولہ باری سے کم از کم آٹھ شہری ہلاک اور تقریبا 20 زخمی ہو گئے۔ عراقی حکام نے اس حملے کا الزام ترکی پر عائد کیا ہے۔
عراق کے ایک سرکاری ٹیلی ویژن چینل نے بتایا کہ “شدید توپ خانے کی بمباری” عراق کے کردستان علاقے اور ترکی کے درمیان سرحد پر واقع شہر زاخو میں ہوئی، جس میں ایک سیاحتی مقام کو نشانہ بنایا گیا۔
خود مختار علاقے کردستان کے وزیر صحت نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ متاثرین میں ایک سالہ بچے سمیت کئی بچے شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تمام ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔ ان کے مطابق تمام متاثرین عراق کے دوسرے علاقے سے بطور سیاح وہاں آئے تھے، جو ہلاک ہو گئے۔
عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے حملے میں، “عراقی شہریوں کی زندگی اور سلامتی” کو پہنچنے والے نقصان کی مذمت کی” اور کہا کہ عراق اپنے پاس جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، “ترک فورسز نے ایک بار پھر سے عراقی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔” الکاظمی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ عراق کی مسلح افواج “ترک جارحیت کے نتائج” پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہیں۔
ترکی ‘کردستان ورکرز پارٹی’ (پی کے کے) کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے اور اس کے خلاف جاری اپنے کریک ڈاؤن کے تحت ایک طویل عرصے سے کردستان کے علاقے پر بھی باقاعدگی سے حملے کرتا رہا ہے۔