کوئٹہ:
بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی دھرنے سے اہم پریس کانفرنس- ہمارے تمام تر مطالبات تسلیم کے جائیں، مطالبات تسلیم نہ ہونے پر احتجاج کو مزید وسعت دینگے اور کوئٹہ-کراچی شاہراہ بند کرینگے-
پریس کانفرنس کرتے ہوئے دھرنا مظاہرین نے کہا کہ ہم گزشتہ ایک ہفتے سے یہاں ریڈ زون میں وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز ، بلوچ یکجہتی کمیٹی ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ وومن فورم ،بی ایس او ، بی ایس او پجار کے کارکنوں کے ساتھ یہاں پر امن احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، روز اول سے ہمارے تین مطالبات رہے ہیں کہ
١- زیارت سانحہ پہ جوڈیشنل کمیشن قائم کیجائے
٢- ہم تمام جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ہمارے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا
٣- تمام جبری لاپتہ کو منظر عام پر لایا جائے
انکا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کیلئے ہم اب تک احتجاج کے تمام تر طریقہ آزما لئے ہیں، کوئٹہ سے اسلام آباد تک طویل اور تاریخی لانگ مارچ،اسلام آباد میں دھرنا اور وہاں وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات، لیکن اب تک کوئی بھی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی ہے، اب ہمارے لاپتہ افراد صحیح سلامت بازیاب ہونے کے بجائے، فیک انکاؤنٹر میں قتل کیے جا رہے ہیں-
ہمارے رکھے گئے تینوں مطالبات جائز اور آئینی ہیں، بطور اس ملکے کے ایک پر امن شہری ہم ریاست سے اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کا تحفظ اور امن مانگ رہے ہیں اور اس کیلئے ہمیں احتجاج کرنے کا بھی بھرپور حق حاصل ہے، ایک مطالبہ جس میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ڈیمانڈ کیا گیا ہے، اس پہ اتنی سی پیشرفت ہوئی ہے کہ کل حکومت بلوچستان کی طرف سے رجسٹرار آفس ہائی کورٹ کو جوڈیشل انکوائری کمیشن تشکیل دینے کیلئے لیٹر لکھا گیا ہے، ہم لاپتہ افراد کے لواحقین جن میں بوڑھی اور بیمار مائیں ہیں، شیرخوار بچے ہیں پچھلے ایک ہفتے سے رات کی سردی اور دن کی گرمی میں یہاں سڑک پہ بیٹھے ہیں مگر مجال نہیں کہ صوبائی حکومت کا کوئی وزیر یا سیکرٹری آکر ہمارے پاس پنچ منٹ بیٹھ کر ہمیں سنتے یا اظہارِ یکجہتی کرتے اور بنفس نفیس ہمارے آئینی مطالبات کو تسلیم کرتے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت ہمیں سنجیدہ نہیں لے رہی ہے نا ہی ہمارے درد اور تکلیف کا ان کو کوئی احساس ہے، ہمارے دو اور اہم مطالبات پہ اب تک کوئی بھی پیشرفت نہیں ہوئی ہے-
اگر اس طرح ہمیں مزید نظرانداز کیا گیا تو ہم مجبوراً اپنے احتجاج میں شدت لائیں گے اور اسے وسعت دیں گے- بلوچستان میں ہزاروں لوگ جبری لاپتہ ہیں جنکے لواحقین مجبوریوں کی بنا پر کوئٹہ نہیں آ سکتے لیکن وہ اپنے اپنے شہروں میں نکل کر اس احتجاج کا حصہ بن سکتے ہیں-
اب ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور مقتدرہ ادارے کا سربراہ آ کر ہمیں سنیں، ہمارے جائز آئینی مطالبات تسلم کر لیں اور ہمیں یقین دہانی کرائیں کہ ہمارے جبری لاپتہ پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا، تب ہم اپنا احتجاج ختم کریں گے- ہم اس زمرے میں کل تک کا وقت دیتے ہیں، اس دوران ہم مزید احتجاجی پیدل لانگ مارچ کرتے رہیں گے اور کل کے بعد ہم کوئٹہ – کراچی مین شاہراہ بلاک کر دیں گے، اس دوران کسی بھی شہری کو کوئی بھی نقصان پہچا تو ریاست اس کا زمہ دار ہوگا-
یہاں موسم کی شدت سے ہمارے بوڑھے ماؤں اور کمسن بچوں کی طبیعتیں بگڑتی جا رہی ہیں، تمام فیملیز کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.