بلوچستان حکومت نے زیارت آپریشن سے متعلق جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے، محکمہ داخلہ کی جانب سے رجسٹرار بلوچستان ہائی کورٹ کو مراسلہ جاری کر دیا گیا ہے۔
محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ مراسلے کے مطابق حکومت بلوچستان زیارت آپریشن سے متعلق جوڈیشل انکوائری کروانا چاہتی ہے۔ جوڈیشل انکوائری زیارت آپریشن میں مارے جانے والے افراد کے زیر حراست ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہے۔
ساتھ ہی محکمے نے رجسٹرار ہائی کورٹ سے عدالتی انکوائری کے لیے عدالت عالیہ کے ایک معزز جج کا نام تجویز کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔
واضح رہے کہ ڈی ایچ اے کوئٹہ میں تعینات کرنل لیئق بیگ اور ان کے کزن عمر رحمان کو زیارت میں سے اغواء اور پھر قتل کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ملحقہ علاقوں میں کالعدم تنظیم کے خلاف آپریشن کیا تھا، جس کے دوران 9 افراد کے مارے جانے کا سیکیورٹی فورسز آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا تھا۔
تاہم بلوچستان کی سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے زیارت میں مارے جانے افراد کی پہلے سے ہی ریاستی اداروں کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کی ہے- جن کے مطابق زیارت آپریشن کے نام پر جبری گمشدہ افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا- اس سانحہ کو لیکر بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا جس میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے جبری لاپتہ بلوچ افراد کو شہید کرنے کی مذمت کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا- اسی طرح کوئٹہ شہر میں گزشتہ چھ دنوں سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین دیگر سیاسی و انسانی حقوق کی تنظیموں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ یکجہتی کمیٹی، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے ساتھ مل کر سانحہ زیارت کیخلاف سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکے لاپتہ خاندان کے افراد کو عدالتوں میں پیش کرتے ہوئے فیئر ٹرائل کا موقع دیا جائے اور ضمانت دی جائے کہ انہیں کسی جعلی مقابلے میں شہید نہیں کیا جائیگا-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.