نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نواب خیر بخش مری کی اٹھویں برسی کوئٹہ پریس کلب میں منائی گئی. پروگرام میں استاد میر محمد علی تالپور مہمان خصوصی کے طور پر شریک رہے. اسٹیج سیکرٹری کے فرائض نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے غنی بلوچ سر انجام دے رہے تھے. پروگرام کا باقاعدہ آغاز بلوچی قومی ترانے سے کیا گیا اور اس کے بعد این ڈی پی کی جانب سے شائع کردہ میگزین ” راج” کی تقریب رونمائی کی گئی-
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر دین محمد بزدار نے نواب خیر بخش مری کی حالات زندگی پر روشنی ڈالی.
پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اتنے بڑے شخصیت کے بارے میں بات کررہے ہیں کہ ہمارے پاس انکو بیان کرنے کے لئے کوئی الفاظ نہیں- دنیا میں بہت سے انسان پیدا ہوتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن کچھ شخصیت نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ جب اس دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو ایک افسانوی شخصیت بن کر ابھرتے ہیں اور پھر انکے شخصیت کی جو پرچھائیاں ہوتی ہیں وہ بڑھتی اور پھیلتی چلی جاتی ہیں- بابا مری نے نہ صرف بلوچ سیاست بلکہ پاکستانی سیاست کو بھی زیر زبر کردیا ہے اور اس میں اس طرح کی تبدیلیاں پیدا کی جس کو ٹھیک کرنے میں زمانے لگ جائیں بابا کے شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش ہے جو آپ کو کھینچتی چلی جاتی ہے.
ایسے شخصیت بہت کم ہوتے ہیں جن کے اثرات پورے تاریخ پر ہوتے ہیں بابا مری کسی بھی شخص پر آسانی سے اعتبار نہیں کرتے تھے کسی پر بھی بھروسہ کرنے کے لئے انہیں سالوں لگتے ،بابا مری اس حد تک بولنے میں احتیاط کرتے تھے کہ کہیں میرے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو دشمن کے لئے فائدہ مند ہو آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنا نقصان ہوچکا ہے کیونکہ ہم نے احتیاط کا دامن چھوڑ دیا ہے لیکن بابا نے آخر دم تک احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا، بابا مری جب تک زندہ رہے انہوں نے دشمن کو اپنا ایک لفظ تک نہیں دیا کہ انکو فائدہ ہو-
استاد محمد علی تالپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک بلوچ قوم پرست کے لئے اگر وہ خدا سے بلوچستان کے علاوہ کچھ اور مانگے تو وہ کفر ہے اگر نواب صاحب اس راہ پر نہیں چلتے تو اسے کیا کچھ نہیں ملتا- انہوں نے کہا اگر ہم بابا مری کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں تو ہمیں ہماری جنت ملے گی ہماری جنت ہمارا یہی بلوچستان ہے ہمیں اور کوئی جنت نہیں چاہیے. قوم پرستی ایک بہت ہی مقدس چیز ہے جس طرح خدا کے ساتھ کسی کو جوڑنا ایک بہت بڑا گناہ ہے، شرک ہے اسی طرح قوم پرستی کے ساتھ بھی کچھ اور جوڑنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس گناہ کی کوئی معافی نہیں ہے، قوم پرستی ایک طریقت ہے اگر اس میں کوئی اپنا فائدہ تلاش کریگا تو وہ شرک کریگا، لوگوں کو اس راہ پر چلنا ہوگا جس راہ کی نشاندھی بابا مری نے کیا ہے بابا مری زندہ ہے کیونکہ وہ ایک فکر ہے بابا مری نا صرف بلوچوں کی بلکہ ہر مظلوم اور محکوم کا لیڈر ہے اور ایسے انقلابی لیڈر دنیا میں بہت ہی کم ملتے ہیں-
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1948 میں بلوچستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا جسکو بعد میں الحاق کا نام دیا گیا لیکن دراصل یہ قبضہ گریت تھا ریاست کو بلوچستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں بلکہ بلوچستان کے معدنیات سے اپنا معیشت کا پہیہ چلا رہی ہے روز اول سے سوئی, اوچ اور ایسے کئی پروجیکٹس پنجاب کے کارخانوں کو ایندھن دے رہے ہیں اسکے علاوہ سیندک, ریکوڈک اور سی پیک جیسے میگا پروجیکٹس ہونے کے باوجود سوئی, سیندک, ڈیرہ بگٹی میں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے جو کہ واضع کرتی ہے کہ بلوچستان کو ایک سوچ کے تحت پسماندہ رکھنا ہے-آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید پامالی ہورہی ہے لوگ لاپتہ کیئے جارہے ہیں اب تو ہماری عورتوں کو بھی گھروں سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا جارہا ہے. بلوچ اپنی دفاع آئینی اور جمہوری انداز میں کررہی ہے اور سیاسی شعور سے لیس تنقیدی محاذ میں ہے لیکن اسکے برعکس بلوچ قوم کو حقوق دینے کے بجائے لاپتہ کیا جاتا ہے-
شاہ زیب نے مزید کہا ہے آج ہم سنگل پارٹی بنانے میں کامیاب نہیں ہوپائے لیکن ہمارے پاس بابا خیر بخش مری کے تعلیمات اور نظریات ہیں ہم انہی کی بدولت یکجا ہوسکتے ہیں مزید کہا کہ این ڈی پی مکمل طور پر نواب خیربخش مری کے نظریات پر عمل پیرا ہے اور انہی کی سیاسی اہداف کو اپنا ہدف سمجھتی ہے- نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نواب خیر بخش مری کے فکر اور فلسفے کو لے کر آگے چلے گی. آخر میں ریفرنس میں شریک مہمانوں کا شکریہ ادا کیا خاص کر محمد علی تالپور کا جو اس پروگرام میں شرکت کے لئے کراچی سے خصوصی طور پر آئے تھے.
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.