احتجاجی کیمپ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ساتھ جبری لاپتہ راشد حسين کی والدہ اور مستونگ سے لاپتہ لیویز اہلکار سعید احمد کی والدہ بھی بیٹھے رہے، جبکہ اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں نال گریشہ سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکنان بیان ساجدی ، سراج ساجدی ،ناصر بلوچ اور دیگر شامل تھے-
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست نے دہشت گردانہ کارروائیوں میں تیزی لائی ہے، خضدار، مشکے آواران نال گریشہ، پنجگور سمیت مختلف علاقوں میں فوج نے اپنے مقامی ایجنٹوں کے زریعے فوجی بربریت اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری کیا ہے، کراچی کے بھی مختلف بلوچ علاقوں میں بھی پچھلے ایک دو مہینوں سے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں تیزی آئی ہے، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے زرغون ولی تنگی اور قریبی علاقوں میں بھی فوجی آپریشن کی جا رہی ہے، جو اب تک فوجی محاصرے میں ہیں جبکہ دو کم عمر لڑکے بھی گزشتہ دنوں اٹھا کر جبری لاپتہ کیے گئے ہیں-
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست نے عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، انسانی حقوق کے تنظیموں کے دعویٰ اور بیانات لفاظی رہ گئے ہیں، بلوچستان انسانی حقوق کے حوالے سے بلیک ھول بنتا جا رہا ہے، نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا بلیک آؤٹ ہے، سب نے چشم پوشی روا رکھا ہے-
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال تیس مارچ کو سوراب سے دو بھائیوں آصف ریکی اور الہ دین ریکی کو دن دیہاڑے بازار سے ایف سی اور ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اٹھا کر جبری لاپتہ کر دیے ہیں، جن کا تاحال کوئی خیر خبر نہیں ہے. انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے نوٹس لینے اور اعلامیے جاری ہونے کے باوجود کوئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں نا کوئی کمی آ رہا ہے نا ان پہ عملدرآمد کیا جا رہا ہے-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.