سیاسی اور معاشی بحرانوں کے شکار ملک پاکستان کی نئی حکومت آخری سانسیں لیتی معیشت بچانے کے لیے اپنی پیشروحکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔
پاکستانی سرکاری وفد دوحہ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے نمائندوں کےساتھ ملکی معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اہم مذکرات کر رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی اقتصادی ٹیم کی کوشش ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے فوری طور پرکم ازکم ایک ارب ڈالر کی پہلے سے طے شدہ قسط حاصل کر لے۔
تاہم ملک میں اقتصادی اصلاحات کی سست رفتار کی وجہ سے حکومتی وفد کے لیے آئی ایم ایف کے نمائندوں کو قائل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے سربراہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ لگ بھگ تیس برس تک وابستہ رہنے والے معیشت دان ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومتیں گزشتہ 75 سالوں سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے سن 2019 میں بیمار ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم تحریک انصاف پاکستان کی حکومت عوام کو دی جانیے والی تیل اور بجلی کی سرکاری سبسیڈیز کوختم نہیں کر پائی اور نہ ہی محصولات کی وصولی کو اس ہدف تک پہنچا سکی، جس کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا تھا۔