سیاف رفیق
جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں قوانین، پالیسیاں، قیادت، اور کسی ریاست یا دیگر سیاسیات کے بڑے اقدامات کا فیصلہ بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر “عوام” کرتے ہیں- جبکہ ماہرین نے تعلیم کواس طرح بیان کیا ہے کہ تعلیم سیکھنے یا علم ہنر اقتدار اخلاق عقائد عادات اور ذاتی ترقی کے حصول کا عمل ہے۔
پاکستان کی تعلیمی اور جمہوری نظام کو اگر ابتداء سے نظر ثانی کریں تو 1947 سے لیکر موجودہ صورتحال تک کچھ اس طرح ہے کہ جمہوری حکومت اور جمہوری نظام کی صرف دہجیاں اڑائی نہیں گئی ہیں بلکہ زوال کی جانب دھکیل دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے 1958میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کرکے اسکندر مرزا کی حکومت کو گرا دیا تھا اور یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ جنرل ایوب خان کے بعد 1969کے مارشل لا کی دوسری لہر جنم لیتا ہے۔جنرل یحییٰ خان کی سربراہی میں اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق 1977کی دہائی میں مارشل لاء نافذ کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو سلاخوں میں قید کرکے بعد میں پھانسی کی سزا دیتا ہے اور یوں جنرل ضیاء الحق کی دور حکومت کا راج اپنی عروج میں آ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ 1999کی دہائی میں جنرل پرویز مشرف آئین شکنی کر کے اسمبلی توڑتا ہے اور گدی کا تاج سر لیتا ہے اس طرح پاکستان میں ہمیشہ کی طرح جمہوریت اور جمہوری نظام کی پامالی کا شکار دہائیوں سے ہوتا آ رہا ہے اور ساتھ میں مارشل لاء کی زد میں تعلیمی نظام صرف متاثر نہیں بلکہ سنگین انجام سے گزر رہا ہے۔
اگر چہ جمہوری اور تعلیمی نظام کو حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ یہ دوسرے انسانی حقوق کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور یہ سماجی اور اقتصادی عناصر کو بااختیار بنانے کا ایک ذریعہ ہے- یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے ذریعے دنیا کے تمام قومیں رضامند ہو گئے کہ تعلیم ہر ایک کا بنیادی حق ہے ۔ہر معاشرہ اپنی ذہنی عادات، سماجی اصول، ثقافت اور نظریات ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے تعلیم اور جمہوری اقدار کے درمیان براہ راست تعلق ہے: جمہوری معاشرے میں تعلیم کو فروغ دیا جائے گا تو ہر معاشرہ جمہوریت کے شانہ با شانہ رہے گا۔ تعلیمی ترسیل کا یہ عمل جمہوریت میں بہت ضروری ہے کیونکہ موثر جمہوریتیں حکومت کی متحرک اور ابھرتی ہوئی شکلیں ہوتی ہیں جو شہریوں کے لیے آزادانہ سوچ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ حکومتوں کو تعلیم کے لیے وسائل کی قدر اور ان وسائل کو تعلیم کیلئیے وقف کرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے کوشش کرتی ہیں۔ خواندگی لوگوں کو اخبارات اور کتابوں کے ذریعے باخبر رہنے کے قابل بناتی ہے۔ باخبر شہری نہ کہ صرف اچھے اقتدار میں ہونگے بلکہ اس سے جمہوریت کو بہتر بنائیں گے۔ جمہوریتوں میں تعلیمی نظام دیگر سیاسی عقائد یا نظام حکومت کے مطالعہ کو نہیں روکتا بلکہ جمہوریتیں طلباء کو محتاط تحقیق کی بنیاد پر معقول دلائل تیار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ جس سے طالب علموں کو نہ کہ صرف خیالات تک محدود کرتاہے بلکہ حکمت عملی سر انجام دینے کی بھی صلاحیت اجاگر کرتا ہے-
جبکہ دوسری جانب پاکستان کی اگر ابتدائی اور موجودہ تعلیمی اور جمہوری نظام کی صورتحال کو دیکھا جائے کچھ خاص تبدیلیاں عمل میں لائے نہیں گئے۔جبکہ بچا کچا نظام جو کہ محض برائے نام کی ہے۔ جمہوری اور تعلیمی نظام کی سانسیں آخری دم پر ہیں۔ ابتداء سے لیکر آج تک دیکھا جائے تو ابھی بھی ادارے تعلیم کو پسماندگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے اس وقت جمہوریت اور تعلیمی نظام دونوں کی مثالیں اس وقت اس مریض کی طرح ہے کسی بھی وقت ڈاکٹر کہے گا” I am sorry”۔
اگر پاکستان کی تعلیمی نظام کو دنیا کی تعلیمی نظام سے موازنہ کریں تو شرحِ خواندگی منفی اثرات مرتب کر چکا ہے جبکہ ابتدائی دور سے لیکر آج تک جتنے حکمران رہے ہیں ان سب نے اپنی سیاست بچانے کی بجائے اگر ٪5 تعلیم بچا لیتے تو آج پاکستان اور اس میں رہنے والے نوجوان اس حال میں نہ ہوتے۔ تعلیم اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ماضی سے سبق لیں اور مستقبل کی جمہوری اور تعلیمی نظام کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے طویل مدتی منصوبے کے تحت کوشش کریں تو ممکن ہے تعلیم اور جمہوریت کو فروغ ملے-
سیاف رفیق لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے تعلیم علم ہیں۔