چنگیز بلوچ
ماضی قریب کے بلوچ قوم پرست سیاست میں فدا احمد بلوچ ان چند نمایاں نام اور کرداروں میں ایک ایسے کردار کا مالک ہے جن کا نام ذہن میں آتے ہی انسان کو سیاست کے میدان میں ایک ایماندار، سچا،فر ض شناس، مخلص، اپنے فکر ونظریہ پر ڈٹنے والا قوم و وطن سے کمٹمنٹ و وابستگی، ایک ایسے حقیقی کردار ذہن کے دریچوں میں نمودار ہوتا ہے جو آج کی موقع پرست سیاست میں وہ ایک افسانوی کردار لگنے لگتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ فسانہ نہیں ایک حقیقت اورجیتا جاگتا ایک انسان تھا۔
بدقسمت ہیں وہ معاشرے اور اقوام جو ان جیسے کرداروں کو بروقت پہچاننے سے انکار کرتے ہیں پھر ذلت اور رسوائی کے راستوں میں بھٹکتے ہیں اور بختاور اور خوش نصیب قومیں نہ صرف ان سے رہنمائی لیتے ہیں بلکہ ان کے جانے کے بعد بھی انہیں یاد کرکے ان سے تجدید وفا کرتے ہیں۔ 2مئی کی مناسبت سے بلوچ و بلوچستان کے ایک ایسے محسن کو یاد کرکے ان سے تجدید عہد کرنا ہے جنہوں نے اپنی مختصر زندگی کا ہر لمحہ بلوچ قومی تحریک کیلئے وقف کر رکھا تھا جس طرح ان کا نام فدا تھا اسی طرح وہ بلوچ قومی جدوجہد کے راستے میں بھی فدا ہوگیا۔
شہید فدا احمد بلوچ کی قوم پرست وترقی پسند نظریاتی اور فکری سیاست وجدوجہد 1970ء کے اوائل اور 1980ء کے اواخر تک محیط ہے اور ہماری جس نسل نے ان کے ساتھ بلوچ نیشنلزم کی سیاست کا بارگراں اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا تھا ان میں سے چند اگر اس وقت حیات ہیں آج سیاست اور قوم پرستی کے نام پر جو کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں وہ یقینا خشک آنسوؤں سے روز خون جگر پیتے ہوں گے اور فدا احمد بلوچ اس لحاظ سے واقعی خوش قسمت تھا جنہیں یہ دن دیکھنے نہ پڑے۔
فدا احمد بلوچ نے جب بی ایس او کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا تو بی ایس او دو دھڑوں میں منقسم تھی کیونکہ 1960ء کی دھائی کے آخرمیں جب اس وقت کے بلوچ طلباء نے کراچی میں بلوچ ورنا وانندہ گل اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کو ضم کرکے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تو وہ اپنے قیام کے بعد جلد ہی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ (یہ ایک لمبی تاریخ ہے اگر زندگی نے ساتھ دیا تو خواہش ہے کہ اس وقت سے اب تک اس راستے میں بلوچ نوجوانوں پر جوگزری وہ رقم ہو)
بلوچ تیسری عسکری مزاحمت اور وقتی پسپائی کے بعد کافی تھک چکے تھے اور نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کی حیدرآباد جیل سے رہائی اورجلا وطنی کے بعد بلوچ قوم پرست سیاست میں جوخلاء پیدا ہوا، اسے بلوچ طلباء اور ان کی تنظیموں نے جو کردار ادا کیا وہ یقینا بلوچ کی قومی وجمہوری سیاسی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش باب ہے کیونکہ 1973ء کے فوجی آپریشن کے بعد ایک عجیب قسم کی صورتحال تھی۔ بلوچستان لٹ چکا تھا، سینکڑوں سیاسی کارکن شہید ہوچکے تھے، آپریشن کے علاقوں میں لوگوں کے گھر بچ گئے تھے نہ مال ومتاع۔ اس کسمپرسی اور مایوسی کے عالم میں جنگ سے متاثرین کے سر پر ہاتھ پھیرنے والا کوئی نہیں تھا۔ لیکن اس دوران بلوچ طلباء اور بی ایس او ہی تھا جو اس جدوجہد کے تسلسل کے دعویدار تھے اور اس جدوجہد کو جاری رکھنے کا برملا اظہارکرچکے تھے اور فدا احمد بلوچ اس دوران نوجوانوں کی پہلی صفوں میں شامل تھا جنہوں نے عوام میں پھیلی ہوئی اس ناامیدی اور مایوسی کو یاس اور امید میں بدل دی اورایک نئی جہت کی شروعات کی۔
اس کے ساتھ ہی انہیں یہ احساس تھا کہ مستقبل کی کسی بھی تحریک وجدوجہد نوجوانوں کی بھرپور شمولیت کے بغیر ادھورا اور نامکمل ہے اس لئے انہوں نے اس وقت کے بی ایس اوز کے بکھرے ہوئے دھڑوں کو ایک ہی صف میں لانے کا عزم کیا کیونکہ 1960ء کی دہائی سے 80ء کے ابتدائی ادوار میں جو نوجوان دونوں بی ایس اوز میں رہ کر بلوچ قوم پرست تحریک میں وابستہ رہے تھے وہ اس دوران تعلیمی اداروں سے تو فارغ ہوچکے تھے لیکن سیاسی ونظریاتی حوالے سے ان کے روابط یا فکری وابستگی اب بھی بی ایس اوز کے نوجوانوں سے باقی تھا، ان میں فدا احمد بلوچ خود بھی ان نمایاں ناموں میں سے ایک تھا جو نوجوانوں کی کیڈرسازی،فکری ونظریاتی تربیت میں پیش پیش تھا اس کے علاوہ ان میں کئی نوجوان 1973ء کے قومی مزاحمت میں عملی طورپر شامل رہے اور بعض نے توجام شہادت بھی نوش کیا۔
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے ابتدائی دور میں بی ایس او کے سابقہ قیادت کے کئی اکابرین زیرزمین چلے گئے اور کئی نے دوسرے ممالک میں پناہ لی۔ فدا احمد بلوچ کی اولین خواہش یہ تھی کہ وہ دونوں بی ایس اوز کی قیادت سے مل کر انہیں ایک متحدہ بی ایس او میں لے آئیں، اس دوران بی ایس او کے ایک سرگرم نوجوان رہنما حمید بلوچ کی پھانسی کا واقعہ پیش آیا، اس سانحے اور وقت وحالات نے دونوں دھڑوں کومجبورکیا کہ وہ متحد ہوکر اس غیرانسانی اور غیرقانونی عمل کے خلاف مزاحمت کریں لہٰذا پہلی دفعہ بی ایس او کے دونوں دھڑوں کے نوجوانوں نے مل کر اس عہد کے بدترین ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ کر میدان میں آئے جبکہ باقی ملک کے بیشتر بورژوا سیاسی جماعتوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا اور اس کی پاداش میں نوجوانوں نے نہ صرف عقوبت خانوں کی سختیاں جھیلیں بلکہ انہیں غیرانسانی سزائیں، کوڑے بھی بھگتنا پڑے، ان میں خود فدا احمد بلوچ بھی شامل تھے جو حمید بلوچ کی پھانسی کے خلاف کوئٹہ سائنس کالج میں نکالے گئے ایک بڑی ریلی واحتجاجی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار کئے گئے ان سخت ترین جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود وہ حمید بلوچ کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ اس زمانے کے فوجی جنتا نے نہ صرف حمید بلوچ کو پھانسی کی سزا پرعملدرآمد کرانے کا حتمی فیصلہ کیا تھا بلکہ وہ بی ایس او کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کرچکے تھے، حمید بلوچ کی پھانسی کے بعد چونکہ دونوں بی ایس اوز قریب آچکے تھے لہٰذا فدا احمد بلوچ جیسے دور اندیش اورموقع شناس انسان نے وقت کی نزاکت کومحسوس کرتے ہوئے انہیں ایک متحدہ بی ایس او کی تشکیل میں عملی قدم اٹھایا اس مقصد کے حصول کیلئے وہ بیرون ملک بھی چلے گئے جہاں بی ایس او کے ایک دھڑے کی سابقہ قیادت مقیم تھی وہاں آپ نے کافی وقت گزارا اوربالآخر وہ ان ساتھیوں کو ایک متحدہ بی ایس او کے قیام کی تشکیل میں قائل کرنے میں کامیاب ہوئے اس کے بعد وہاں سے وہ خلیج کے بلوچوں سے ملنے اور انہیں بلوچستان کی سیاسی قوتوں کے ساتھ جوڑنے کی نیت میں وہاں کا رخت سفر باندھ لیا۔ یہاں کے بلوچوں کی جانب سے انہیں خوب پزیرائی ملی اور وہ وہاں رہ کر ظفاری قومی تحریک جو اس دورمیں کافی سرگرم تھی اور وہاں کے بلوچوں کو بھی خفیہ طور سے اس تحریک سے منسلک کردیا اور ”جبل“ کے نام سے ایک ماہوار رسالہ نکالا جسے بلوچ وظفاری تحاریک کا مشترکہ ترجمان کی حیثیت حاصل تھی، جبل غالبا ً ماہنامہ ”لیمانڈ“ کا تسلسل تھا جو پیرس میں فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی اور بلوچ قوم پرستوں کی کسی زمانے میں ترجمان تھی جو پیرس میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوکر دنیا کے تقریباً تمام ترقی پسندوں تک پہنچتی رہی،جن کا مقصد بلوچ قومی تحریک کو دنیا میں متعارف کرانا تھا اُس دور کے اپنے اکابرین کے قومی خدمت اور جدوجہد کو سمجھنے کیلئے ہماری نوجوانوں کو میرجمعہ خان کی کتاب، فریب ناتمام، کا مطالعہ بے حد ضروری ہے خلیج کے بعد فدا احمد بلوچ بلوچستان میں آتا ہے-
فدا احمد بلوچ ایک علمی اور عملی انسان تھا اس لیئے وہ ہروقت میدان عمل میں رہے، انہوں نے اپنی محنت جدوجہد اور صلاحیتوں کے بدولت اُس زمانے میں بی ایس او کو نہ صرف بلوچستان بھر بلکہ ملکی سطح پر پی پی ایس اے پاکستان پروگریسیواسٹوڈنٹس الائنس سے بھی منسلک کردیا جو کہ اس زمانے میں ملک کے تمام ترقی پسند اور روشن خیال طلباء کا نمائندہ تنظیم تھا جو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ممبر تھا فدا احمد بلوچ نے اپنی انتھک جدوجہد سے بی ایس او کو بین الاقوامی طلباء یونین سے بھی جوڑ دیا- ابھی بی ایس او اپنی کامیابیوں کے منازل طے ہی کررہاتھا کہ 1980ء کے وسط میں پھر ایک سانحے کا شکار ہوئی اور فدا احمد بلوچ کی کاوشوں کو جیسے پھر گرہن لگ گیا اور اس دفعہ خطرناک حد تک بی ایس او پولرائزیشن کا شکار ہوتا ہے اور اس دفعہ بی ایس او کی اس تقسیم میں اندرونی سے زیادہ بیرونی عمل دخل کارفرما ہوتی ہے کیونکہ ان اندرونی عناصر کی خواہش ہوتی ہے کہ بی ایس او اور ان کی قیادت ان بیرونی عناصر کی خواہشوں کے مطابق اپنی حکمت عملی تشکیل دے یا ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے لیکن بی ایس او اور ان کی قیادت ان عناصرکی خواہشات یا پالیسیوں کو یکسر رد کرتے ہوئے اپنی تحریک کو اپنے حالات وضرورتوں کے مطابق اپنی حکمت عملی اپنانا چاہتا تھا- یہ پہلو مزید تحقیق طلب ہے- بہرحال ایک دفعہ پھر بی ایس او تقسیم ہوجاتی ہے،ادھر نومبر1987ء میں فدا احمد بلوچ اپنے دوستوں سے ملکر بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ کے نام سے ایک اوپن جماعت کے قیام کا اعلان کرتا ہے- شہید فدا احمد بلوچ کی خواہش و کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اس جماعت کو بلوچستان بلکہ جہاں بھی بلوچ آباد ہوں اسے فعال اور منظم بنا کر اسے بلوچ وبلوچستان کی موثر آواز کے طور پر دنیا میں متعارف کرائے لیکن شاید فطرت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں یا پھربلوچ کی بدبختی اب بھی باقی تھی کہ ابھی ان کی جماعت کو بمشکل چھ مہینہ ہی ہوا تھا کہ بی ایس او کی اس پولرائزیشن کے دوران وہ اپنی ہی کتابوں کی دکان میں بلوچ دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر 2مئی 1988ء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم سے جسمانی طورسے جدا ہو جاتے ہیں- فدا احمد بلوچ اپنی شہادت کے بعد ایک فرد نہیں ایک تحریک بن جاتا ہے اور یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بلوچ کی حق حاکمیت کی جنگ جاری وساری ہے- شہید فدا احمد بلوچ کی 34ویں یوم شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.