امانت حسرت
میٹرو کی لمبی لائن میں ۔ ۔ ۔ وہ مجھ سے تین چار قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ ۔ ۔ ۔اور مجھے باربار حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ایسا محسوس ہورہاتھا ۔ ۔ ۔ ۔جیسے ہم دونوں نے ۔ ۔ ۔ ۔ایک دوسرے کو پہلے ۔ ۔ ۔ کئی دیکھا ہے ۔ ۔ ۔میں نے ہم دونوں کی اجنبیت کو ختم کرنے کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔پوچھا۔ ۔ ۔
کیا تم۔ ۔ ۔ ۔ چمن اسٹیشن میں جانا چاہتی ہو۔ ؟۔ ۔۔ اس نے پر اعتماد انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔اُس کی اس پراعتماد جواب سے اندازہ ہوا ۔ ۔ ۔وہ اکیلی اور۔ ۔ ۔ ۔ دستیاب ہے ۔
کچھ دیر خاموشی رہی ۔ ۔ ۔ پھر اس نے پوچھا۔ ۔ ۔ ۔تم بلوچی ہو۔ ۔ ۔ ۔
میں نے حیرت سے مسکراتے ہوئے ۔ ۔ ۔ جواب دیا۔ ۔۔۔ جی میں بلوچی نہیں ۔ ۔ ۔ بلوچ ہوں ۔۔ ۔ اور تم ۔ ۔ ۔۔ پنجابی ہو ؟
اس نے بُرا سا منہ بناکر کہا۔ ۔ ۔ ۔ جی نہیں ۔۔ ۔ پنجاب میں رہنے والی ہر لڑکی پنجابی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔
میں بھی تو بلوچ ہوں ۔ ۔ ۔میری مسکراہٹ دیکھ کر ۔ ۔ ۔ اپنی شہ رگ پر ہاتھ رکھ کر۔ ۔ ۔ ۔کہنے لگی ۔ ۔ ۔ بلیو می۔ ۔ ۔ ۔
میں نے کہا ۔ ۔ پھر تو آپ اپنا نکلے ۔ ۔۔بلوچ قوم کے کس قبائل سے ؟۔ ۔ ۔ مررانی ۔ ۔ ۔ اس نے جواب دیا۔ ۔ ۔ یہ قبیلہ ہوت کی ایک شاخ سے ہے اس قبیلہ نے تین صدیوں تک ڈیرہ غازی خان پر حکومت کی ۔ ۔
آپ کھبی بلوچستان آئی ہے ۔؟۔۔۔۔نہیں جی ۔ ۔۔ ۔ کھبی نہیں ۔ ۔ ۔
بلوچی زبان جانتی ہے ؟( جواب مختصر پاکر میں نے بات کو آگے بڑھانے کے لیے۔۔ ۔ ایک اور سوال پھینک دیا)۔ ۔ ۔ ہم سرائیکی زبان میں بات کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ در حقیقت میں ایک بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئی ۔ ۔ ۔ میرے سکول جانے سے پہلے ہی ۔۔۔۔۔میرے ابو فوت ہوئے تھے ۔ ۔ پھر امی نے ایک پنجابی سرمایہ دار سے دوسری شادی کرلی ۔ ۔ ۔ اب ہم اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ۔ ۔ ۔ اس لیے نہ بلوچستان کے بارے میں زیادہ پتہ ہے اور نہ ہی بلوچی کے ۔ ۔ ۔ ۔آپ کے قمیص دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا۔ ۔ ۔آپ بلوچ ہی ہونگے۔ ۔ ۔ کیونکہ بلوچوں کی تاریخ کا ایک بہت پرانی بک میرے ابو نے لائے تھے ۔ ۔ ۔ اس میں ہمارے اباو اجداد کچھ تصاویروں میں۔ ۔ ۔ اسی طرح کے۔ ۔ ۔ بڑے شلوار والے۔ ۔ ۔ کپڑوں میں ملبوس ہیں ۔ ۔ ۔ اتنے میں میٹرو بھی پہنچ گئی۔ ۔ ۔ ہم دونوں جلدی جلدی سوار ہوئے ۔۔۔ رش کافی تھا۔ ۔۔ وہ سیٹ پر بیٹھ گئی اور میں ۔ ۔ ۔ کھڑا رہا۔ ۔ ۔ اس نے گفتگو کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ آپ یہاں کیا کرنے آئے ہو ؟۔ ۔ ۔ ۔ میں ایم فل کررہا ہوں پاکستانی لینگویج میں۔ ۔ ۔میں نے کہا۔۔ ۔
اس نے آنکھوں میں اظہار اپنائیت سجائے ۔۔۔ ۔ ۔ علم ۔ ۔ لاشعور سے شعور کی طرف انسانی بقا اور ترقی کا ارتقائی سفر ہے ۔ ۔ ۔ (گویا اب وہ اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہے )۔ ۔ ۔ بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ اور بے پتہ نہیں ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ ورنہ ان کے درسگاہوں پر۔ ۔ ۔ جنات کا قبضہ ہوجائے گا۔ ۔ ۔ ۔
یہ سن کر مجھے کسی شاعر کا یہ شعر یاد آیا ۔ ۔ ۔
اور موقع مناسبت سے فائدہ اٹھاکر ارشاد کردیا۔ ۔ ۔
پاتے ہیں کچھ گلاب پہاڑوں میں پرورش۔
آتی ہے پھتروں سے خوشبوں کھبی کھبی ۔
ہاتھ اٹھاتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ واہ جی ۔ ۔ ۔کیابات ہے ۔۔۔ شاعری کا بھی زوق رکھتے ہو۔ ۔ اس نے کہا ۔ ۔
۔ ۔جی تھوڑا بہت ۔ ۔ میں نے کہا۔ ۔
زبان میھٹی ہو تو سماجی چاشنی سے عشق کا پہلو نکلتاہے۔ ۔ ۔ ۔ مسکراتے ہوئے اس نے کہا۔ ۔ ۔ اتنے میں ان کے اسٹاپ بھی آن پہنچا۔ ۔ ۔ پہلی اور آخری الوداع کے لیے ۔ ۔ ۔نائیس ٹو میٹ یو۔ ۔کہے کر میری طرف نرم و نازک ہاتھ بڑھایا ۔ ۔۔ ۔ ۔ لفظوں نے ضرور کہا الوداع ۔ ۔ ۔ ۔ پر میرے لہجے نے ان سے ہاتھ جوڈے تھے ۔۔ ۔۔۔
اس دن مجھے اندازہ ہوا ۔ ۔ ۔ کبھی کھبی ہمیشہ چھوڑ کے جانے کے لیے بھی لوگ ہاتھ ملایا کرتے ہیں-
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.