زبیر بلوچ
میر یوسف عزیز مگسی سے لیکر نواب خیربخش تک بلوچ لیڈرشپ ہر وقت قبائلی لیڈرشپ تھا جو تنظیم اور تنظیم سازی سے کم قبائلیت کو زیادہ ادارے سمجھتے تھے نواب خیر بخش اس کے روشن مثال ہیں البتہ نواب مگسی نے خود کو ڈی کلاس کرکے عام بلوچ کی حثیت سے سیاسی جدوجہد کو ترجیح دی تھی ۔ بلوچ لیڈرشپ قومی جدوجہد میں طبقاتی تضاد کو سمجھنے سے ہر وقت قاصر رہا ہے لیکن نواب مری زبانی جمع خرچ کے حد تک خود کو سوشلسٹ کہتے اور سمجھتے تھے باوجود بورژوا ایلٹ کلاس سے تعلق رکھنے کا بلوچ قبائلی لیڈرشپ قومی لیڈر شپ کے نعم البدل کے طور پر ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔ انھوں نے بلوچ وطن اور بلوچ قومی و طبقاتی جدوجہد کے لیے گراں بہا قربانیاں دی ہیں ۔اپنی زندگیوں کے بیشتر حصہ وقف کرکے قید وبند کی قربانیاں اور صعوبتیں برداشت کیں ۔ کبھی اصولوں پہ سودا بازی نہیں کیں ۔مشکل ترین حالات میں تحریک اور وطن کے لیے جدوجہد کرکے بیش بہا قربانیاں دیں ۔بلکہ ان کے دیئے ہوئے قربانیاں اور ان کے گشتن آج بھی قومی و طبقاتی جدوجہد کے لیے مشعل راہ ثابت ہورئے ہیں ۔ بلوچ بورژوا ایلیٹ کے برعکس واجہ غلام محمد نے ایک عام بلوچ کے گھر آنکھ کھولی ان کے اردوگرد میں کوئی بورژوا ایلیٹ تھا اور نہ کے قبائیلت اور جاگیرداریت جو بلوچ کا خون چوس کر اپنی امارت قائم کرے ۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول ہائی مند سورو اور پھر ڈگری کالج تربت سے گریجویشن کیا ۔ جب واجہ ڈگری کالج تربت میں زیر تعلیم تھے تو بی ایس او تربت کے زونل عہدیدار بنے ۔ وہاں وہ شہید وطن کامریڈ فدا احمد بلوچ کے شاگردی میں آئے کامریڈ فدا احمد نے واجہ غلام محمد اور بی ایس او کے دیگر ساتھیوں کی بھرپور نظریاتی و فکری تربیت کی اور انھیں جدید علم سے روشناس کرکے قومی و طبقاتی جہد و عمل کے لیے تیار کیا ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ کراچی یونیورسٹی چلے گئے وہاں آپ نے سیاسیات میں ماسٹر کی ۔ بی ایس او حئ گروپ کے مختلف عہدوں میں ہوتے ہوئے آپ 1990 کے مرکزی کونسل سیشن میں تنظیم کے مرکزی چیئرمین منتخب ہوئے اور ڈاکٹر ایوب زہری اپ کے سکریٹری جنرل منتخب ہوئے ۔ جب اپ بی ایس او کے چئیرمین منتخب ہوئے تو اپ نے بی ایس او کو بلوچستان سندھ اور ڈیرہ غازی خان سمیت ان تمام علاقوں میں بی ایس او کے انقلابی پروگرام کو پہنچا کر وسعت دی جہاں بلوچ اپنے ہلک و گدان میں رہیتے تھے ۔
۔2000؏ کے بعد جب بلوچ سیاست نے ایک نیا شفٹ لیا عالمی حالات بدلنے کا بلوچ یوتھ نے ادراک کر لیا ۔ بلوچ مزاحمتی جدوجہد کا ایک نئی اٹھان شروع ہوئی ۔بلوچ نے نئے حالات کا تقاضااور نجات کا واحد ذریعہ مسلح جدوجہد کو جانا اور باقاعدگی سے مسلح جدوجہد 1973 کے بعد ایک مرتبہ پھر شروع ہوا اس کے اثرات بہت جلد بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل گئے ۔ تو لامحالہ واجہ غلام محمد بلوچ اس معاشرے کے فرد تھے اور ایک حساس فرد کی حثیت سے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ آپ نے بی این ایم حئ کے اندر اس وقت کے حالات کا تجزیہ پیش کیا اور اپنا الگ تناظر رکھا ۔ ایک لمبے عرصے تک مختلف سیاست کرنے کی راہ اور ڈگر پر چلنے والے بی این ایم حئ اس بات پر قائل نہ تھا کہ پارلیمانی جدوجہد کے علاوہ بھی نجات ممکن ہے ۔ واجہ غلام محمد بلوچ اور اس کے ساتھیوں نے یہ تناظر پیش کیا کہ پولٹیکل پارٹیاں وقت اور حالات کے انجن ہوتے ہیں وہ کسی بھی وقت حالات کا رخ بدل سکتے ہیں ۔جس سے سماج اور حالات کے اندر بدلاؤ ممکن ہوسکتی ہے ۔ اگر آج ہم بحثیت پولٹیکل قوت کے سماج کے کلیدی اور ڈرائیونگ فورس کے یہ فیصلہ لیں کہ بلوچ اور بلوچستان کی ضرورت کیا ہے ۔ عالمی سیاست کے تناظر میں بلوچ کیا فیصلہ لے تو ہم سماج کو اپنی مرضی سے موڈ سکتے ہیں ۔
واجہ غلام محمد نے بلوچ سماج کے علاقائی اور عالمی حالات و صورتحال کا ادراک کرتےہوئے بی این ایم حئ کے اندر رہتے ہوئے اپنا الگ نظریاتی فکری اسٹانس لیا جو بالاخر بی این ایم کے شکل میں اپنی ایل الگ پارٹی بنائی ۔ آپ نہ صرف ایک روشن خیال ترقی پسند سیاست دان تھے بلکہ جدید بلوچی شاعری کے ایک ترقی پسند شاعر تھے ۔ آپ اپنی شاعری اور ادبی کاوشوں سے بلوچ سماج کو بدلنے و انصاف پر مبنی معاشرے بنانے اور ہر طرح کے استحصال اور لوٹ مار کے خلاف امن شانتی پر مشتعمل ایک آزاد بلوچ سماج جو معاشی سیاسی خوشحالی کی ضمانت ہو کی تشکیل کی سعی کرتے تھے ۔ واجہ غلام محمد اپنے متحرک سیاسی کردار اور ولولہ انگیز قیادت اور شعلہ بیانی کی وجہ سے دشمن کے توسیع پسندانہ عزائم ، قبضہ گیریت استحصالی منصوبوں اور عزائم کو بے نقاب کرتے تھے ۔ آپ نے مکران سے لیکر سندھ کراچی تک بلوچ نوجوانوں کو بیدار کیا انھیں ایک تنظیم میں جوڑنے اور پرونے کی کوشش کی ۔ ان کے اندر قومی جزبات اور شعور پیدا کیا ۔ اور یہی شعوری پروگرام آپ کی
شہادت کا سبب بنے ۔ جیسا ایک انقلابی استاد نے کہا تھا کہ انقلاب سب سے پہلے اپنے بچوں کو نگلتا ہے بالکل اسی طرح واجہ کے خواب بھی ایک ایسی خواب تھی ۔
آپ نے اپنے خوابوں کی تعمیر کا دیپ اپنے خون سے روشن کیا ۔
اور وہ خواب ایک نئی صبح کا خواب تھا جس کے متعلق ساحر یوں کہتے ۔
وہ صبح ہمیں سے آئے گی
جب دھرتی کروٹ بدلے گی
جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے
جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے وہ صبح ہمیں سے آئے گی ۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.