:کوئٹہ
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بلوچستان کے مسائل پسماندگی ،لاپتہ افراد اور آپریشنز ہیں ضروری نہیں کہ تحریری معاہدہ ہوں اگر نیتیں صاف ہوں اور حکمران بلوچستان کو اس ملک کا حصہ سمجھتے ہیں تو انہیں ہم سے زیادہ بلوچستان کا احساس ہوناچاہیے ۔اگر یہ مسئلے حل نہیں ہو رہے جس طرح لوگوں کا اعتماد مرکز اور فیڈریشن سے اٹھتا چلا جا رہا ہے تو پھر بلوچستان کا اعتماد کسی بھی مرکزی پارٹی پر نہیں رہے گا۔عوام کے مینڈیٹ کا پاس رکھتے ہوئے بلوچستان کے مسائل حکمرانوں کے سامنے رکھیں گے ،تحریک انصاف میں ووٹ کی ضرورت کی حد تک سنجیدگی تھی اور ضرورت پورا ہونے پر ان کی طرف گوارا بھی نہیں کرتے تھے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے غیر ملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ تحریک انصاف کو جب جب ووٹ کی ضرورت ہوتی تو وہ سنجیدگی دکھاتے مگر ضرورت پوری ہونے کے بعد ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک اتحادی اور ایک حمایتی کے ناطے بھی بڑے فیصلوں میں شامل نہیں کرتے تھے،انہوں نے کہاکہ مسنگ پرسنز کے معاملے پر میں نے ان کے سیاسی لوگوں جن میں پرویز خٹک اور جہانگیر ترین بھی تھے،ان سے بات چیت کی۔ عمران خان سے بھی جب بات کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ آرمی چیف سے ملاقات کریںمیں انھیں کہتا تھا کہ مجھے ان سے ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ معاہدہ آپ نے ہم سے کیا ہے، آپ نے دستخط کیے ہیں، آپ اس کو حل کریں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل عمران خان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ہو یا پچھلی حکومتیں، اگر سو فیصد مسائل حل نہیں ہوتے تو 30 فیصد تو حل کرنا ان کے لیے مشکل نہیں تھا۔کچھ ایسے مسائل تھے جو ان کے ہاتھ میں نہیں تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں تھے۔لیکن اس کے علاوہ جو دیگر اشوز تھے ترقی کے وہ تو ان کے ہاتھ میں تھے۔سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ جب انھوں نے تحریک انصاف کی حکومت چھوڑی اور متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوئے تو ان کے سامنے اپنی ناراضی کی وجوہات رکھی تھیں۔اپوزیشن قیادت نے ان کے مسائل کو حقیقی قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو سیاسی کلچر اور معیشت تباہ ہوئی اور عمران حکومت کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا تو ہم نے اپنی سخت شرائط سامنے نہیں رکھیں، ہاں ایک یقین دہانی ضرور کرائی گئی ہے۔ اب اس کو مسودے کی شکل دے کر پیش کریں گے۔’اپنے نکات کے حل کے لیے میں نہ پہلے اتنا پر امید تھا اور نہ اب ہوں۔ لیکن ہمارا ایک فرض بنتا ہے۔ عوام نے ہمیں ایک مینڈیٹ دیا ہوا ہے۔ اس مینڈیٹ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے مسائل کو حکمرانوں کے سامنے پیش کریں گے۔
سردار اختر مینگل نے کہاکہ بلوچستان کی پسماندگی،مسنگ پرسنز اور فوجی آپریشنز کے جو مسائل ہیں اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ تحریری معاہدہ ہی ہو۔اگر نیتیں صاف ہوں اور وہ بلوچستان کو اس ملک کا حصہ سمجھتے ہیں تو بلوچستان کی پسماندگی کا جو احساس ہمیں ہے انھیں زیادہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں جو تحریک انصاف کے سامنے رکھا تھا وہ مطالبات ان کے سامنے رکھ رہے ہیں وہی لے کر ہم اپنے عوام اور ووٹروں کے پاس جائیں گے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اگر یہ مسئلے حل نہیں ہو رہے جس طرح لوگوں کا اعتماد مرکز اور فیڈریشن سے اٹھتا چلا جا رہا ہے تو پھر بلوچستان کا اعتماد کسی بھی مرکزی پارٹی پر نہیں رہے گا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.