سنگت زکریا شاہوانی
بلوچستان، جس کو قدرت نے بے شمار قیمتی وسائل سے نوازا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اب بھی بلوچستان کو ناخواندگی، غربت، صحت جیسے سنگین بنیادی مسائل اور امن و امان کی خراب ترین صورتحال کا سامنا ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں بے شمار قیمتی قدرتی وسائل ہونے کے باوجود غربت کا جو ریشو ہے وہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ جب کہ ان تمام برائیوں کی بڑی وجہ نو آبادیاتی نظام اور ناقص طرز حکمرانی ہیں۔
اسی طرح حکومتی عمل کے ہاں بیوروکریسی وہ اہم انتظامی نظام ہے جس کے ذریعے نظام چلایا جاتا ہے۔ یہاں بیوروکریسی کے ذریعے سیاست میں بہت زیادہ مداخلت کی جاتی ہے۔ جس طرح ٹرانسفر پوسٹنگ، مفاد عامہ اور کارکردگی کی بنیاد پر نہیں کی جاتیں اور وہ خودی اور سیاسی مفادات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ ایماندار اور قابل افسران کو بدنام کیا جاتا ہے، ان کی عزت اچھالی جاتی ہے، اور انہیں آفیسران کو آن اسپیشل ڈیوٹی (OSD) پر رکھا جاتا ہے۔
اگر بیوروکریسی اصولوں، ضابطوں کے تحت کام کریں تو ہم سب ایک مختلف بلوچستان کا تصور کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بیوروکریسی کو کسی بھی سیاسی چھتری کے نیچے کھڑا ہونا پڑتا ہے، کیونکہ اچھی نوکری اور پوزیشن حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ افسران کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مسائل کا نظام اتنا زیادہ سیاست زدہ ہے۔ جس کی چنگل سے نجات ناقابل فہم بن چکا ہے۔
اگر کوئی افسر متعلقہ وزیر کے علاقے کے منتخب ممبران کے ناجائز قانونی احکامات سے انکار کرتا ہے، تو اسے دوسرے دن او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے۔ اور ان سے تمام قانونی اختیارات چھین لیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی کا مورال بہت گرا ہوا ہے اور وہ چیزوں کو جانے دیتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی طرف جا رہے ہوں، کیونکہ وہ نتائج جانتے ہیں۔
ہماری بیوروکریسی میں ایک چیز بہت مشہور ہے جو ایکٹنگ افسران کی تعیناتی کا معاملہ ہے اور اضافی چارجز جونیئرز کو دیے جاتے ہیں جب کہ سینئر بیوروکریٹس میسر ہوتے ہیں۔
تو اسی مطابق چیف سیکرٹری صوبوں میں قابل بیوروکریسی ہونے کے ناطے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر افسران کو سیاسی تشدد سے بچائیں، سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کے تبادلے بند کریں، کارروائی اور اضافی چارجز لینے کا رجحان بند کریں۔ ان تینوں چیزوں نے صوبے کا پورا بیوروکریسی نظام تباہ کر دیا ہے۔
دوسری طرف جس طرح مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا قریباً 55 فیصد تھی لیکن 55 فیصد کے بجائے اسے 50 فیصد وسائل قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جب کہ فوج اور سول سروس میں ایسٹ بنگال کا حصہ 20 فیصد بھی نہیں تھا۔ بلوچستان کی صورتحال میں انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ اسے اس کی غربت اور پسماندگی کے تناظر میں پروپورشن کے اعتبار سے وسائل مہیا کیے جاتے لیکن اس صوبہ کو اس کی آبادی کی بنیاد پر وسائل مہیا کیے جاتے رہے ہیں۔
جیسا کہ ون یونٹ سے صوبائی خودمختاری تک پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ان میں سے کسی نے بھی بلوچستان کے عوام پر صدقِ نیت سے توجہ نہیں دی۔ آمروں سے لے کر سیاسی حکمرانوں تک سب کے سب انہی اسکیموں کے ساتھ ہی شاہانہ تخت پدھارتے رہے۔ صدر ممنون کے اس جملے کو اگر جملہ توجیہہ لیا جائے کہ ’’ملک کے بعض حصوں کے عوام کی پسماندگی خود وہاں کے ماضی کے حکمرانوں کی زیادتیاں اور وسائل کا غلط استعمال ہے‘‘، تو بھی زیادتی کے احساس کو تھپکی نہیں ملتی اور ذہن میں یہی سوال برجستہ سر اٹھاتا ہے کہ کیا ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف جیسے آمروں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ وفاق کے ایک چوتھائی وسائل کو بلوچستان اور اس کے عوام کی فلاح پر خرچ کرتے اور وہاں دیگر صوبوں کی طرح تعلیمی ادارے اور سول سروس کا نظام مضبوط کرتے‘ ہمارے خیال میں ایسا کرنے سے بلوچستان کے قبائلی سردار اُن کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے نہ کہ وہ اپنی ہی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے۔
اسی طرح ہمارے حکمران اور انکے حواری بلوچ سردار اپنی اپنی حیثیت میں بلوچ عوام کو کبھی باتوں کی گولیوں سے تو کبھی بندوقوں کی گولیوں سے شانت کراتے رہے ہیں۔ صوبے میں تعلیم کا نظام اتنا پست ہے کہ غریبوں اور پسماندہ علاقوں کے بچے اچھی تعلیم کے لیے ترستے رہ جاتے ہیں- حالانکہ تعلیم صرف سرداروں‘ خانوں اور نوابوں کی اولادوں ہی کا مقدر چلی آ رہی ہے‘ بلوچی رؤسا کے صاحبزادگان کوئٹہ‘ کراچی‘ پشاور‘ لاہور اور مغرب کے بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے سول سروس یا افواج پاکستان کا حصہ بن جاتے ہیں جب کہ ایک عام غریب بلوچ طالبعلم کلرک اور نائب قاصد کی نوکری سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔
شروع دن سے لے کر آج تک بلوچستان جوکہ انہی ایشوز اور محرومیوں کے ساتھ نرمی اور انتہائی سست رفتار سے حرکت کرتا آرہا ہے بانسبتہ باقی صوبوں کے درمیان جہاں ناخواندگی، غربت، صحت جیسے سنگین بنیادی مسائل اور امن و امان کی خراب ترین صورتحال کا سامنا پیش آیا ہو اور جبکہ بیوروکریسی نظام اپنے تعین کردہ کام کو سر انجام دے اور بیوروکریسی کو سیاست سے نتھی کیا جاتا رہا تو ہی بلوچستان میں ناقص طرز حکمرانی کا سلسلہ چلتا رہے گہ بجائے اس کے ایک مظبوط اور مثبت تبدیلی محسوس کر سکیں۔ کیونکہ بیوروکریسی کسی سیاسی دباؤ میں نہیں آئے گی وہ عوامی مفاد میں آزادانہ فیصلے کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہو گی۔ یہ رجحان اب ختم ہونا چاہیے اور بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ بیوروکریسی کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا اور سیاست کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پر نہ رہنے دینا اب وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.