نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ان چھ افراد کو ایسا مواد شائع کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ عوام کو حکومت کے خلاف غداری کرنے پر اکسا رہے تھے۔
گرفتار افراد میں سٹینڈ نیوز کے ایڈیٹر ان چیف پیٹرک لیم کوپولیس کی جانب سے ہتھکڑیوں میں لے جاتے دیکھا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق چنگ پوئی کیون اور بورڈ ممبر کے چار دیگر اراکین جنہوں نے اس سال جون میں استعفیٰ دے دیا تھا انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دو سو پولیس اہلکاروں نے ایک آن لائن میڈیا کمپنی کے دفتر کی تلاشی لی ہے۔
میڈیا کے مطابق ہانگ کانگ کے نیشنل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ہانگ کانگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین رانسن چین کے گھر کی بھی تلاشی لی گئی۔
رانسن چین جو سٹینڈ نیوز کے نائب مدیر بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کے کمپیوٹر، موبائل فون، ٹیبلیٹ، پریس پاس اور بینک ریکارڈز کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ انہیں بھی پولیس کی جانب سے پوچھ گچھ کے لیے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا لیکن بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
رانسن چین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا، سٹینڈ نیوز نے ہمیشہ پروفیشنل نیوز رپورٹنگ کی ہے اور مجرمانہ الزامات یہ حقیقت تبدیل نہیں کریں گے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سنٹر فار ایشیا لاء کے فیلو ایرک لئی نے جرمن میڈیا ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحافیوں کی گرفتاریاں ایک انتہائی خطرناک پیش رفت ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اب کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کے خلاف عوام کو اکسانے والے مواد کو شائع کرنے کا الزام کچھ ماہ قبل بچوں کی ایک کتاب شائع کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا۔ایرک لئی کے مطابق یہ بہت پریشان کن صورتحال ہے کیوں کہ ہانگ کانگ میں اس قانون کے تحت حکومت کسی بھی مواد کو حکومت مخالف قرار دے کر اس کو شائع کرنے والوں کو گرفتار کر سکتی ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس تنظیم نے ان گرفتاریوں کو ہانگ کانگ کی پہلے سے متاثر میڈیا کی آزادی پر ایک کھلا وار قرار دیا۔
خیال رہے یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ہانگ کانگ کی پولیس نے صحافیوں کو گرفتار کیا ہو۔ اس سال جون میں حکومت نے جمہوریت نواز اخبار ‘ایپل ڈیلی’ کے دفتر پر چھاپہ مار کر صحافیوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس اخبار پر بیرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر ہانگ کانگ حکومت کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.