اطلاع کے مطابق ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کا دس گھنٹے طویل اِن کیمرہ سیشن بھی منعقد کیا گیا تھا ۔ اس اجلاس میں تمام ترکوششوں کے باجود حکومت ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے اراکین پارلیمان کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
بلوچستان میں وکلاء تنظیموں نے ریکوڈک کے خفیہ معاہدے کے خلاف بروز منگل صوبے بھر میں عدالتی کارروائی کا بھی مکمل بائیکاٹ کیا۔اور بلوچستان بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن نے ریکوڈک معاملے پر بلوچستان ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان بار کونسل کے وائس چئیرمین قاسم علی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ” حکومت اس خوشی فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ ریکوڈک پر کسی خفیہ معاہدے میں وہ کامیاب ہو جائے گی ، انہوں نے کہا بلوچستان کے عوام ماضی کی طرح اب خاموش نہیں رہیں گے ۔
قاسم علی کا کہنا تھا کہ کل اسمبلی کا جو ان کیمرہ اجلاس ہوا ہے اس تناظر میں قانونی پہلووں کا جائزہ لے رہے ہیں ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ بھی جاسکتے ہیں۔
بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینیئر پارلیمنٹرین نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ حکمران ملک کے دیگر وسائل کی طرح اب ریکوڈک کے حوالے سے بھی خفیہ معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک ہمارا قومی سرمایہ ہے اور ہماری آئندہ نسلوں کی بقا انہی معدنی وسائل میں ہے، بند کمروں میں ریکوڈک سمیت بلوچستان سے متعلق ہونے والے کسی فیصلے کو ہم تسلیم نہیں کریں گے،انہوں نے کہا ان کمیرہ اجلاس نے حکومتی ڈرامے کا پول کھول دیا ہے۔
دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کوئٹہ میں جاری کئے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے ان کیمرہ اجلاس اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے کے لیے منعقد کیا گیا تھا ۔ بیان کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں 42 اراکین نے شرکت کی جس میں انہیں ریکوڈک کے حوالے سے عالمی اداروں کے فیصلوں اور دیگر امور سے اگاہ کیا گیا۔
خیال رہے اس منصوبے کے حوالے سے پہلا معاہدہ 1993 میں کیا گیا تھا۔ بعد میں معاہدے میں شامل کمپنیوں میں کاروباری تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے چند سال قبل قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پرٹی سی سی یا ٹھیتیان کاپرکمپنی کے ساتھ ہونے والے ریکوڈک معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اس معاہدے کی منسوخی کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ لائسینس کے لئے دوبارہ رابطہ کیا تھا تاہم اس وقت کی صوبائی حکومت نے یہ شرط عائد کی تھی کہ ریکوڈک میں مائننگ سے حاصل ہونے والی معدنیات کی ریفائنری ملک سے باہر نہیں بلکہ مقامی سطح پر کی جائے گی۔
مائننگ کے لائسینس مسترد ہونے کے بعد ٹی سی سی نے پاکستانی حکومت کے خلاف سن 2011 میں بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل سے رجوع کر کے 16 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا
آسٹریلیا اور چلی کی مشترکہ لائسینس کی منسوخی پر بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل نے پاکستان پر 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے اپیل دائر کی تھی۔
ذرائع کے مطابق ریکوڈک منصوبے پر کام کے لیے بعض چینی کمپنیوں نے بھی حکومت سے رابطہ کیا ہے ۔ تاہم اس حوالے سے حکومتی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔