ھدایت مجید
بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کو کبھی اپنے مسنگ ہم مکتب کی رہائی کیلئے جو ہاسٹلوں سے اغوا کئے جارہے ہیں،کبھی میرٹ کی پامالی،Reserved seats کے خاتمے اور اسکالرشپ کی بندش،یا پھر ایڈمنسٹریشن کے ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کرنے اور روڈوں پر نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
2013 میں بلوچستان حکومت کی جانب سے تین نئے میڈیکل کالجز قائم کرنے کی منظوری دی گئی جن میں مکران میڈیکل کالج تربت،جھالاوان میڈیکل کالج خضدار اور لورالائی میڈیکل کالج لورالائی شامل ہیں،تینوں میڈیکل کالجز کے فنکشنل کرانے کیلئے 2016 کو بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کو روڈوں پر نکل کر احتجاج کرنا پڑا تب جاکے 6 مہینے بعد ناحس بالا اختیار نے تینوں کالجز کھول دئیے تھے۔
حال ہی میں پاکستان میڈیکل کمیشن نے رجسٹریشن کے خاطر بلوچستان کے تین نئے میڈیکل کالجوں کا دورہ کیا اور یقین دہانی کروائی کہ رجسٹریشن کیلئے تینوں کالجز کے میڈیکل سہولیات اطمینان کن ہیں۔ پھر اس کے باوجود انہوں نے ایک شرط رکھی ہے کہ کالجز رجسٹریشن کیلئے زیرِتعلیم طلبا و طلبات کو ایک خاص امتحان پاس کے پروسس سے گزرنا ہوگا- کالج رجسٹریشن کیلئے زیرِتعلیم ہر اسٹوڈنٹس کو یہ خاص امتحان پاس کرنا ھوگا تب جاکر اسٹوڈنٹس کو رجسٹریشن ملے گی اور فیل شدہ اسٹوڈنٹس کے میڈیکل کیریئر کو ختم کیا جائیگا جو کہ طلبا کے ساتھ سراسر زیادتی اور تشویشناک ثابت ہو سکتا ہے- آخر کب تک ہم بلوچستان کے اسٹوڈنٹس اس ظلم اور زیادتیوں کو برداشت کرتے رہیں؟-
ایک میڈیکل اسٹوڈنس ایف۔ایس۔سی کے بعد دن رات محنت کرکے MDCAT کی تیاری کرتا ہے پاکستان کے ہائیر اداروں سے ٹیسٹ پاس کرکے میرٹ کے بنیاد پر تب جاکے کسی میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ داخلے کے بعد اُنکے سالانہ امتحانات بھی پاکستان ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے رجسٹرڈ ادارے، بلوچستان یونیورسٹی یا بولان یونیورسٹی آف میڈیکل ائینڈ ہیلتھ سائنسز سے لئے جاتے ہیں جن کی قابلیت پر کوئی شک نہیں۔
تاریخ کھول کر دیکھیں پاکستان کے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کے رجسٹریشن کیلئے طلبا کو کوئی خاص قسم کے امتحان سے نہیں گزرنا پڑا ہے تو بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ کیوں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور کیوں ہر وقت انھیں قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔
اگر کالجز اطمینان کن نہیں ہیں یا رجسٹریشن کے قابل نہیں اس میں طلبا کو کیوں زمہ دار ٹہرایا جا رہاہے،میڈیکل کالجز کے سہولیات اور ضروریات پورا کرنے کے زمہ دار ہیلتھ منسٹر،سیکٹری ہیلتھ اور حکومت ہیں انکی زمہ داری ہے پھر طلبا کو اس بات کی سزi دینا تعلیم دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔ 600 کے قریب طلبا و طالبات ان تین میڈیکل کالجز میں زیرِتعلیم ہیں اور سارے میرٹ کے بنیاد پر سلیکٹ ہوئے ہیں سالانہ امتحان بھی انھوں نے ملک کے رجسٹرڈ اداروں سے پاس کیا ہے اگر انکی قابلیت پر شک ہے تو انکے پچھلے میرٹ لسٹ اور سالانہ امتحان کے رکارڈز چیک کریں جو آپ کے رجسٹرڈ اداروں کے پاس موجود ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ملک کے رجسٹرڈ اداروں کی قابلیت پر بھی شک ہے یا تو ہر حال میں تعلیم دشمنی کا ثبوت دینگے اور بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کو تعیلم سے محروم رکھینگے۔
ہم اعلیٰ حکام سے درخواست کرتے ہیں خدارا بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کی زندگیاں داؤ میں نہ ڈالیں- بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کوئی اینیمل ایکسپیریمنٹیشن کے لئے نہیں ہیں جو ہر وقت نئے تجربات ان پر کیے جائیں یا ہر نیا عمل ان پر اپلائی کیا جارہا ہے۔
وہ اسٹوڈنٹس جو پچھلے چار سال سے ان تینوں میڈیکل کالجز میں زیرِتعلیم ہیں اگر پی۔ایم۔سی کے اس خاص امتحان کے پروسس سے نہیں نکل سکے ڈراپ آوٹ ہوئے ان کی مستقبل کا زمہ دار کون ہوگا؟ غریب طلبا جنکے پاس دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں،والدین پتا نہیں کس حال میں اپنے بچوں کو پڑھا کر اس پوزیشن تک لا پاتے ہیں اور آپ ایک امتحان کے ذریے انکا کیرئیر ختم کرنا چاہتے ہیں۔؟
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.