اسلام آباد:
مذہب کی جبراً تبدیلی سے اقلیتوں کو بچانے کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے اینٹی فورسڈ کنورژن بل یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ’’قانون بنانے کیلئے حالات سازگار نہیں‘‘۔
قادری نے کہا کہ ایسا بل بننے سے اقلیتوں کے مسائل اضافہ ہوگا اور یہ انہیں مزید خطرے میں ڈال دے گا، اسلام میں جبراً مذہب کی تبدیلی یا شادی کا کوئی تصور نہیں
دریں اثنا ، پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ بل کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ جبری مذہب کی تبدیلیوں کے حوالے سے عمر کی حد مقرر کرنا اسلام اور آئین کے خلاف ہے۔
رواں سال فروری میں سینیٹ کے ایک پینل نے بھی اس بل کو مسترد کردیا تھا۔ انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق اگست میں علماء نے مجوزہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اسے “سازش” اور “مغرب کا جال” قرار دیا۔
مجوزہ قانون مذہبی اقلیت کے کسی فرد کی جبراً مذہب تبدیلی پر پابندی عائد کرتا ہے۔ ایک غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے اور دوسرا مذہب قبول کرنے کے قابل اور آمادہ ہے، اسے اپنے شہر یا ضلع کے ایک ایڈیشنل سیشن جج کو تبدیلی مذہب کے سرٹیفکیٹ کیلئے درخواست دینی ہوگی۔
قانون کے مطابق اس شخص کو اپنا شناختی کارڈ، مذہب، عمر، جنس اور اپنے والدین یا شریک حیات کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی، سرٹیفکیٹ میں تبدیلی مذہب کی وجہ بھی شامل ہونی چاہئے۔
سرٹیفکیٹ جمع ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج درخواست گزار کے انٹرویو کیلئے ایک تاریخ مقرر کریگا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ فیصلہ کسی دباؤ کے تحت نہیں لیا گیا۔
مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج غیر مسلموں کو مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کیلئے 90 دن کا وقت دے سکتا ہے۔
مذہب کی جبراً تبدیلی ثابت ہونے پر قانون یہ سزائیں تجویز کرتا ہے۔
جبراً کسی کا مذہب تبدیل کرانے والے کو پانچ سے 10 سال کی قید کی سزا اور ایک لاکھ سے 2 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
کسی کا جبری مذہب تبدیل کرنیوالے کو 100،000 روپے جرمانہ اور/یا تین سے پانچ سال قید کی سزا ہوگی۔
زبردستی کسی کا مذہب تبدیل کرانیوالے کو بھی ایک لاکھ روپے جرمانہ اور یا تین سے پانچ سال کی قید ہوگی۔
Courtesy: SAMAA
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.