جرمن وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایران پر اس بات کے لیے سخت زور دیتی ہے کہ وہ ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرے جس کا مقصد جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ”ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم اس کے لیے وقت کا دروازہ ہمیشہ نہیں کھلا رہے گا۔”
فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی اسی طرح کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ایران سے جوہری امور پر مذاکرات شروع کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
سن 2015 میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، روس اور یورپی یونین نے ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد معاشی پابندیوں میں نرمی، کرنا تھا۔ یہ معاہدہ مشترکہ جامع منصوبے کے نام سے بھی معروف ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا تھا۔
مشترکہ جامع منصوبے میں ایران میں یورینیم کی افزدگی کو محدود کرنے پر خاصا زور دیا گیا تھا۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے سن2018میں یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا اور ایران پردوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے رد عمل میں ایران نے بھی معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا
سن 2018 میں جب سے امریکا نے اس معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تب سے ایران نے بھی یورینیم کی افزدگی کی جو حد تھی اس کا پاس نہیں رکھا اور اس نے زیادہ بہتردرجے تک یورینیم افزدہ کر لیا۔ اس پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.