سنگت زکریا شاہوانی
مختلف فلاسفروں نے سیاست کو مختلف پہلوؤں سے بیان کیا ہے، کچھ فلسفی کہتے ہیں کہ سیاست مصیبت کو ڈھونڈنا ، اسے ہر جگہ ڈھونڈنا ، اس کی غلط تشخیص کرنا اور غلط علاج کا اطلاق کرنے کو سیاست کا نام دیا گیا ہے. اسی طرح دوسری طرف کچھ فلاسفر کہتے ہیں کہ سیاست ایک جنگ کی طرح پرجوش ہوتی ہے، اور اتنا ہی خطرناک جنگ جس میں آپ کو صرف ایک بار مارا جاسکتا ہے، لیکن سیاست میں کئی بار۔
جیسا کے ہمارے معاشرے میں سیاست کو خدمت اور کچھ کا کہنا ہے سیاست کاروبار، جھوٹ دوکھا اور چوری کا نام ہے. دوسری طرف صحیح معنوں میں بیان کریں تو ایک مسئلے کو صحیح طریقہ سے حل کرنے کے عمل کو ہم سیاست کہتے ہیں. تو اگر ہم اس جملے کو مزید نظر ڈالکر اپنے معاشرے میں دیکھیں تو اس جملے کا بالکل برعکس ہے. جہاں غریب عوام کو دربابدر کرنا اسے لوٹنا اور اسکی تذلیل کرنے کے عمل کو یہاں سیاست کا نام دیا گیا ہے.
عوامی تخیل میں سیاست دان پیشہ ورانہ جھوٹے کے مساوی ہوتے ہیں ، یا جیسا کہ مصنف جارج آرول نے ایک بار کہا ہے”سیاسی زبان کو جھوٹ کو سچائی اور قتل کو قابل احترام بنانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے”۔ اگر سیاست کے تعارف کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے معاشرے میں ایک نظر ڈال لیں جہاں حکمرانوں نے سیاست کو اس طرح یرغمال بناکر رکھا ہے جبکہ لوگوں کو اب سیاست سے نفرت سی ہوگئی ہے. اگر لوگوں سے پوچھا جائے تو وہ سیاست کو جھوٹ، کرپشن، مارپیٹ اور پتہ نہیں کیا کیا نام دینگے.
اسی طرح لوگوں نے اس تکلفانہ حالات پر گزر بسر کرنے کو ہی سیاست کا نام دیا ہے. اگر صحیح طور اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو بلکل اسی طرح کے حالات ہم پہ گزر رہے ہیں. جس کے سب سے بڑے ذمدار ہمارے حکمران ہیں. جبکہ اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے بے شمار وعدے کرتے ہیں۔ عوام یہی سوچتے ہیں کہ ان کے تمام وعدے پورے ہوں گے۔ تاہم جیسے ہی وہ اقتدار حاصل کرتے ہیں، عوام سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں اور ہر الیکشن میں لوگوں کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔ ان سب سے، صرف عام لوگوں کو جھوٹ اور بدعنوان سیاستدانوں کے ہاتھوں بھگتنا پڑتا ہے۔ حالانکہ وہ سیاستدان اپنے چہرے اسی وقت دیکھاتے ہیں جب الیکشن سر پر آن پڑتے ہیں۔
اور ہاں کیا آپ نے کبھی اپنے معاشرے میں غور کیا ہے کہ ہر آنے والی حکومت میں کم و بیش وہی لوگ ہوتے ہیں جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہوتے ہیں، جب بڑی مچھلیاں اپنی سیاسی وفاداریاں بدل رہی ہوتی ہیں تو کیا انہیں علم نہیں ہوتا کہ وہ ماضی کے سیاسی حریفوں سے ہاتھ ملانے والے ہیں؟ سیاست میں کوئی مستقل حریف یا حلیف نہیں رہ سکتا ہے۔ ایسے نظریاتی اور بااصول لوگوں کی پاکستانی سیاست میں فی الوقت کوئی جگہ نہیں ہے.
مزید یہ کہ سیاست دانوں کی اکثریت کرپٹ ہے۔ وہ ملک سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وزراء اور ان کے اہل خانہ جیسے مضامین سے گھوٹالوں اور غیر قانونی طریقوں میں ملوث خبریں آتی ہیں۔ جو طاقت ان کے پاس ہے وہ ان کو ناقابل تسخیر محسوس کراتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی جرم سے بھاگ جاتے ہیں۔
اگر ہم یہاں کی بات کریں جہاں حکمرانوں نے سیاست کو اپنا کاروبار بنایا ہے. لوگوں نے انہیں ووٹ دیکر سامنے لے آئے ہیں اور وہ پھر لوگوں کو استعمال کرکے اپنا کام پورا کرتے ہیں. جبکہ پھر وہی عوام جنہوں نے اسے اس عہدے پر پہنچا دیا وہ عوام اکیسویں صدی میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے- جیسا کہ پانی ،تعلیم،اور باقی بنیادی ضروریات سے۔ دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے اور جب کہ ہم سڑکوں پر بیٹھ کر کبھی بجلی اور کبھی پانی کی پکار میں مصروف ہوتے ہیں.
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.