آزرمراد
تحریک نسواں کے عالمی دن پر جب لوگ عورت، آزادی اور حقوق کے نعرے لگانے میں مصروف ہوتے ہیں تو تب میں اپنے موبائل کی وہی پرانی تصویروں کو ٹٹولاتا ہوا اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آج کونسی تصویر وٹس ایپ کے اسٹیٹس کے لئے مناسب رہے گی اور کونسی تصویر فیسبک کے وال پر یہ ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہو گی کہ میں بھی عورت، آزادی اور اُس کے حقوق کا قائل ہوں لیکن کافی ڈھونڈنے کے بعد بھی میں اپنے مطلب کی تصویر تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتا ہوں اور عورتوں کا عالمی دن مجھے پدرسری نظام کا ماننے والا ایک قدامت پرست فلسفے کا طالبعلم ثابت کرکے گزر جاتا ہے.
لیکن کس نے سوچا تھا کہ اس بار مجھے وہ تصویر مل جائے گی کہ جس سے میں اپنے اوپر مصلت اس قدامت پرستی کے دبے کو مٹا دوں گا اور میرے وٹس ایپ اسٹیٹس اور فیسبک کے وال کے اوپر شئیر کی ہوئی اس تصویر سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ شخص عورت کی آزادی کا حامی ہے اور اُس کے حقوق کا بھی انکاری نہیں ہے.
میں اُس تصویر کو دیکھ کر کچھ دیر تو اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا اس تصویر کو کہ جس میں موجود شخص کی اپنی ایک جدوجہد رہی ہے استعمال کرکے یہ ثابت کروانا کہ میں عورت کی آزادی اور اُس کے حقوق سے انکار نہیں کرتا ٹھیک رہے گا، کیا اس سے میں خود کو مطمن کر پاؤں گا کہ میں واقعی عورت، اُس کی آزادی اور اُس کے حقوق کا انکاری نہیں ہوں؟ کیا اس تصویر سے میں اپنے قوم کی ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو جو کچھ تصویریں ہاتھ میں لئے در بہ در سڑکوں پر پھر رہی ہیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جاؤں گا کہ میں ان کی اُس انتظار سے آزادی کا حامی ہوں جو کہ ان پر زبردستی تھوپ دی گئی ہے؟ کیا میں اس تصویر سے یہ ثابت کر پاؤں گا کہ میں اُن کی اُس خوف سے آزادی کا حامی ہوں کہ جو دن رات اُن کو اُن تصویروں میں موجود اپنوں کی سلامتی کی وجہ سے سونے نہیں دیتا؟ کیا اس تصویر سے میں یہ ثابت کرنے کے قابل ہو جاؤں گا کہ میں اُن کی سڑکوں، کیمروں، مائیکوں، سرد راتوں، آنسوؤں، پولیس کی لاٹھیوں، جھوٹے وعدوں، بے ہنگھم نعروں، جھوٹی تسلیوں، فیسبکی دلاسوں اور ان جیسی نجانے اور کتنی چیزوں سے آزادی کا واقعی حامی ہوں؟.
میں اُس تصویر کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں اس تصویر کو استعمال کرکے خود کو اُس تحریکِ نسواں کا حامی ظاہر کر سکوں کہ جس کی بنیادیں چند یورپی سوچ کی سطروں اور دیسی لبرل لوگوں کے رنگین نعروں پر منحصر ہے تو اُس تصویر پر کیا گزرے گی کہ جس کی زندگی تحریک نسواں کے لئے اگر نعرہ لگانے میں گزرتی تو اُس میں کچھ اور سالوں کا اضافہ ہو سکتا تھا، اگر وہ یہ نعرے لگاتی تو شاید اُسے اپنی زمین چھوڑ کر کسی غیر سرزمین میں پناہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی، اگر وہ ایسی ہی کسی تحریک کے لئے سڑکوں پر نکلتی تو شاید آج میں اس کی تصویر دیکھ کر یہ نہیں سوچ رہا ہوتا کہ اس تصویر کو استعمال کرکے خود کو اس تحریکِ نسواں کا حامی منوانا میرے ضمعیر اور سوچ دونوں کے خلاف ایک بغاوت ہے.
اس لئے میں اپنے موبائل میں موجود ان پرانی تصویروں سے نکل کر خود کو یہ تسلی دینے لگ گیا کہ اگر کسی نے مجھ سے عورتوں کے عالمی دن کے متعلق پوچھا تو میں اُسے یہ کہہ کر مطمئن کر دوں گا کہ مجھے کوئی ایسی تصویر نہیں ملی کہ جس کو میں وٹس ایپ کے اسٹیٹس پر لگا دیتا اور اس کی کوئی اتنی زیادہ ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ میں اس دن کا حامی ہوں اور باقی دل سے تو میں ان عورتوں کے ساتھ ہوں ہی.
آزر مراد کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ فائنل ایئر کے طالب علم ہیں.
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.