کوئٹہ:
سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جھوٹے مقدمات میں گرفتار جہانزیب کے والد خدا نذر اور سید اویس شاہ کے والد سید مولابخش نے شال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے دعوی کو مسترد کرتے ہوئے سچائی بیان کی کہ دونوں کو پنجگور سے ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ رکھا گیا اور ان کی جبری گمشدگی کے دوران حکام سے بارہا ملاقاتیں کی گئیں تاکہ ان کی بازیابی یقینی بنائی جاسکے۔
ان کے ساتھ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بھی موجود تھے۔
چار دن 12 مارچ 2021 کو میڈیا پر سی ٹی ڈی کے ترجمان کی طرف سے دعوی کیا گیا کہ سی ٹی ڈی شال کی ٹیم نے موصول معلومات پر لنک سریاب روڈ پر چھاپہ مارا بی ایل اے کے دو ممبران کو گرفتار کیا جن کی شناخت سید اویس شاہ اور جہانزیب بلوچ کے ناموں سے کی گئی۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ جہانزیب کو 17 فروری 2021 کو چتکان بازار سے پاکستانی فوج نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا تھا جب کہ سید اویس شاہ کو 11 فروری 2021 کو پنجگور بازار سے اٹھایا گیا۔
جھوٹے مقدمے میں گرفتار جہانزیب کے بھائی ’شاہ نذر‘جبری لاپتہ ہیں جنھیں 17 اگست 2019 کی شام بازار سے اس وقت گرفتاری بعد جبری لاپتہ کیا گیا جب وہ گھر کے لیے سودا لینے گئے تھے۔
پریس کانفرنس:
میں خدانذر ولد حاجی فضل کریم ہوں۔ میرا تعلق تحصیل پروم ضلع پنجگور سے ہے کچھ عرصہ پہلے میں پروم سے نقل مکانی کرکہ پنجگور آیا تھا تاکہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول میں داخلہ دے کر پڑھا سکوں کیوں کہ پروم میں اسکول نہ ہونے کے برابر تھے۔میں نے اپنے تین بیٹے شاہ نذر، اللہ نذر، جہانزیب کو ایک پرائیوٹ اسکول میں داخل کروایا چار پانچ سال محنت مزدوری کرکے ان کا فیس ادا کرتا رہا مگر روز گار نہ ہونے اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کا فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہوکر مجھے اللہ نذر اور شاہ نذر کو پرائیوٹ اسکول سے نکالنا پڑا اور انکو ماڈل ہائی سکول پنجگور میں داخل کیا۔
اسکول پاس کرنے کے بعد میرا بیٹا شاہ نذر ڈگری کالج پنجگور میں فرسٹ ایئر میں پڑھ رہا تھاچھٹیوں کے دنوں میں شاہ نظر میرے ساتھ مزدوری بھی کرتا تھا ، حالاں کہ وہ نابالغ اور بچہ تھا مگر مجبوری اور گھر کے حالات ایسے تھے کہ اس سے بھی گھر میں رہا نہ گیا اور میری مدد کے لیے محنت مزدوری کرنے لگا۔ جب شاہ نذر کے کھیل کود کی عمر تھی گھر کی حالات ایسے تھے کہ وہ ان کو سدھارنے کے لیے تگ و دو کرنے لگا اور بڑے اطمینان کے ساتھ گھر کی دیکھ بھال میں لگ گیا ۔17 اگست 2019 کی شام کو شاہ نظر سودا لینے گھر سے نکلا عصر کا وقت تھا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا تھا لیکن وہ واپس نہیں آیا تلاش کرنے پر ہمیں دکان دار سے معلوم ہوا کہ ایک سفید رنگ کی سرف گاڑی میں مسلح افراد شاہ نذر کو یہیں سے مار مار کر آنکھوں پہ پٹی باندھ کر اپنی گاڑی میں پھینک کر لے گئے ۔
یہ بات بلوچستان میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہاں لوگوں کو جب بندوق کی نوک پر اغوا کیا جاتا ہے چاہے اس کا کوئی قصور ہی نہ ہو ان کے والدین پر قیامت گزرتی ہے۔ ہم نے یہ دن رات ، سال ،مہینے قیامت میں گزارے ہیں۔ خیر بیٹے کو تو اُٹھا کر لے گئے لیکن باپ ہوں اپنے بیٹے کو کیسے بندوق بردار لوگوں کی رحم و کرم پر چھوڑ سکتا تھا۔ اگلی صبح ہم دپٹی کمشنر شفقت شاہوانی صاحب سے ملے اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا تو انھوں نے ہمیں یقین دلایا کہ میں خفیہ ادرے کے لوگوں سے بات کرکے آپ لوگوں کو اطلاع دوں گا مگر ہمارے روز ملاقات کے علاوہ ہمیں اپنے بیٹے شاہ نذر کے متعلق معلومات فراہم نہیں کی گئی۔
اس کے بعد پنجگور سے منتخب صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر میر اسد اللہ سے ملاقات کی اور انہیں ساری داستان سنا دی تو اس نے بھی یہی دلاسے دیئے مگر آج تک شاہ نذر کی کوئی خبرنہیں ۔ ہم انہی کرب ناک اذیت سے گزر رہے تھے گھر جہنم جیسا تھا اور قصہ یہیں سے ختم نہیں ہوا۔ پندرہ دن گزرنے کے بعد رات 11 بجے میرے گھر کا چاروں طرف سے محاصرہ ہوا اور کئی درجن ایف سی اور سیول ڈریس میں ملبوث لوگ گھر کے اندر داخل ہوئے جو شاہ نذر کو اپنے ساتھ لے کر آئے تھے، اُس کی آنکھوں پر پٹی بندی ہوئی تھی انتہائی کمزور اور بے بس نظر آرہا تھا۔
مسلح لوگوں نے میرے ساتھ ساتھ میرے 15 سالا بیٹے اللہ نذر ، 13 سالا جہانزیب اور میرے بھائی کو بندوقوں کی نوک سے زدوکوب کیا اور یہ پوچھ کر مزید مارتے رہے کہ اسلحہ کہاں ہیں اور انھوں نے پورے گھر کی تلاشی لی جب انھیں کچھ نہیں ملا تو انھوں نے جہانزیب کے سر کو دیوار سے دے مارا تو وہ خون سے لت پت ہوکر گر پڑا اور گھر سے ایک ہنڈا 70cc موٹر سائیکل اپنے ساتھ لے کر گئے ۔
ان کی لاٹھیوں اور لاتوں سے جہانزیب کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی مگر خوف کے مارے نہ ہم رات کو کسی ڈاکٹر کے پاس جاسکے نہ ہمارے پاس کوئی وسیلہ تھا۔ ہم نے صبح ہونے کا انتظار کیا۔ اسے نزدیکی کلینک لے کر گئے پٹی کرکے میں اپنے دونوں بیٹوں جہانزیب اور اللہ نذر کو لے کر ڈی سی پنجگور شفقت صاحب کے پاس گیا اور انہیں سارے زخم دکھائے اور انہیں آگاہ کیا کہ 15 دن پہلے میرے بیٹے شاہ نظر کو لے کر گئے ہیں اور کل رات میرے گھر کی چادر و چاردیواری پامال کرکے ہمیں پبندوقوں کے نوکوں سے لہو لہان کیا گیا مگر ہمیں ضلعی انتظامہ سے بھی کوئی انصاف نہیں ملا۔
یہ بکرا عید کے دن تھے اور صوبائی وزیر میر اسداللہ بھی پنجگور آیا تھا ہم ڈی سی سے مایوس ہوکر صوبائی وزیر میر اسدللہ کے پاس گئے اور انہیں اپنے اور بچوں پر آئے زخم اور نشانات دکھائے مگر آج تک ہماری باتوں کو سنی ان سنی کرتے رہے ہیں۔ اس دن کی سارے تصاویر بھی ہمارے پاس ہیں جنھیں ہم دو سال بعد میڈیا کے سامنے لا رہے ہیں جنہں سامنے لانے سے ہمیں تین سالوں تک نامعلوم افراد روک رہے تھے اس دلاسےکے ساتھ کہ وہ شاہ نذر کو جلدی چھوڑ دیں گے۔
شاہ نذر کو چھوڑنا تو دور کی بات 17 فروری 2021 کو میں اپنے بیٹے جہانزیب کے ساتھ چتکان بازار میں تھا مجھے کال آئی کہ میرے بیٹے اللہ نذر کو اس کے دکان سے مسلح افراد لے کر گئے ہیں، میرا بیٹا جہانزیب ان کہر آفت حالات کی وجہ سے پہلے سے ہی نفسیاتی مسائل کا شکار تھا ۔اللہ نذر کی گمشدگی کا سن کر وہ زار قطار رونے لگا اور میں بے بسی کی حالت میں دم بخود رہ گیا مگر خود کو سنبھال کر دکان کی طرف چل دیا جوں ہی میں وہاں پہنچا ہمارے پہنچنے پر ہم وہاں موجود لوگوں سے واقعہ کے بارے میں بات کررہے تھےکہ وہی جو اللہ نذر کو لے کر گئے تھے ایک خاکی رنگ کا x کرولا کار گاڑی اور ایک سفید جمی جیپ دوبارہ آگئے x کرولا سے چار مسلح بندے نکلے سیٹ کھول کر اللہ نذر کو دھکا دے کر اتارا اور سیدھا ہماری طرف آئے اور جہانزیب کو پکڑنے لگے میری مزاحمت پر کہ میرے آنکھوں کے سامنے میرے بیٹے کو کہاں اور کیوں لے کر جاتے ہو تو مجھے بندوق کی بٹ اور لاتوں سے مار کر گرا دیا اور اسے لے کر چلے گئے ۔
میرے پوچھنے پر میرے بیٹے اللہ نذر نے کہا کہ مجھے فوجی کیمپ لے کر گئے اور پہنچتے ہی کسی کی آواز آئی کے یہ جہانزیب نہیں اللہ نذر ہے اس لیے مجھے یہاں لے کر آئے اور جہانزیب کو لے گئے ۔ میں پھر پہلے کی طرح کھبی اس در کھبی اس در کی ٹوکھریں کھاتا رہا بھلا اور کیا کرسکتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 13 مارچ رات دیر ہمیں کسی رشتہ دار سے معلوم ہوا کہ روزنامہ انتخاب کے آن لائن اخبار پر خبر نشر ہوا ہے کہ محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی ) نے کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ سے 2افراد کو گرفتار کرلیا ہے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)کے ترجمان کے مطابق گزشتہ روز موصول خفیہ معلومات کے مطابق کالعدم تنظیم کے 2افراد کے شال پہنچنے کی اطلاعات تھیں جو فورسز پر حملے کی غرض سے یہاں پہنچ رہے تھے۔سی ٹی ڈی شال کی ٹیم نے موصول معلومات پر لنک سریاب روڈ پر چھاپہ مار کر دونوں افراد کو گرفتار کرلیا۔ کالعدم تنظیم کے کارندوں کی شناخت سید اویس شاہ اور جہانزیب بلوچ کے ناموں سے کی گئی ہے ملزمان کے قبضے سے دھماکا خیز مواد اور بم بنانے میں استعمال ہونے والے آلات بھی برآمد کیے گئے ہیں۔ تفتیش میں دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ کالعدم تنظیم کے رہنماؤں نے انہیں شال میں کارروائیوں کا ٹاسک دے رکھا تھا ۔
مجھ سے پہلے اویس کے والد سید مولابخش نے بھی میڈیا کے سامنے بتایا تھا کہ میرا بیٹا 11 فروری کو پنجگور بازار سے اٹھایا گیا تھا ، میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرا نابالغ بیٹا نہ دہشت گرد ہے اور نہ کبھی اپنے گھر سے نکلا ہے کہ اس پر ہماری نظریں نہ ہوں. ان سارے واقعات سے پہلے جو برتاؤں میرے خاندان پر کیا گیا پورے پنجگور اور پروم کے فرد فرد کو معلوم ہے ۔۔ میرے بوڑھے والد (حاجی فضل کریم ) جو میرے والدہ کے ہمراہ پروم سے پنجگور جارہا تھا راستے میں مسلح افراد نے گاڑی روک لی والد صاحب کو مار پھیٹ کر لے گئے 48 دن بعد انتہائی بیمار حالت میں چھوڑ دیا گیا پھر کچھ مہینے بعد میرے بھائی صابر جو لیویز کا سپاہی ہے کو دوران ڈیوٹی پروم تھانہ سے اغوا کیا گیا 19 مہینے تک اسکا کوئی پتہ تک نہ تھا کہ زندہ ہیں یا نہیں، 19مہینے بعد انتہائی خراب حالت میں بازیاب ہوئے ہم حکام بالا سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں باربار ایسی اذیت سے دوچار کیا جا رہا ہے ، کیا کوئی بھی حکام بالا ہمیں بتانے کی زحمت کرئے گا کہ ہمیں کیوں جینے نہیں دیا جا رہا ہے؟
میں اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں اور تیار ہوں اگر میڈیا اور منصف ایماندار لوگ جاکر پروم پنجگور گھر گھر ہر فرد سے ریسرچ کریں لوگوں سے پوچھیں اگر ہم سے کسی کو نقصان پہنچا ہے یا ہماری کارکردگی کسی سے ڈکھی چھپی ہے تو ہم واقعی قصور وار ہیں۔ اگر نہیں کر سکتے تو ہماری زندگیوں کو کیوں اس طرح اندوہناک بنایا گیا ہے؟
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.