ایران اور چین نے آپس میں قریبی اسٹریٹیجک تعاون کے ایک پچیس سالہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہ طویل المدتی معاہدہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلات کے شکار ایران کو درپیش کئی متنوع اقتصادی امور کا احاطہ کرتا ہے۔
ایرانی دارالحکومت تہران سے ستائیس مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے بتایا کہ ان دونوں ممالک کے مابین اس معاہدے پر دستخط آج ہفتے کے روز کیے گئے۔ اس دوطرفہ معاہدے کو ‘جامع اسٹریٹیجک شراکت داری‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ تیل کی صنعت اور کان کنی سے لے کر صنعتی کارکردگی میں اضافے تک کئی طرح کی اقتصادی سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے۔
اس کے علاوہ اسی معاہدے کے تحت تہران اور بیجنگ کے مابین ربع صدی تک ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبے میں بھی قریبی تعاون کیا جا سکے گا۔ ایرانی ٹیلی وژن کے مطابق اس معاہدے کے طے پا جانے کی تقریب میں ملکی وزیر خارجہ جواد ظریف اور ان کے چینی ہم منصب وانگ یی شامل ہوئے۔
چین کے ساتھ کیا جانے والا یہ معاہدہ ایران کے لیے کسی بڑی عالمی طاقت کے ساتھ کیا گیا پہلا طویل المدتی سمجھوتہ ہے۔ اس سے قبل 2001ء میں ایران نے روس کے ساتھ بھی زیادہ تر جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، مگر اس معاہدے کی مدت صرف دس سال تھی۔
بعد میں اس معاہدے میں دو مرتبہ پانچ پانچ سال کے لیے توسیع کر دی گئی تھی۔ اس طرح اس روسی ایرانی سمجھوتے کی مجموعی مدت بیس سال ہو گئی تھی۔
بیجنگ اور تہران کے باہمی تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ حالیہ برسوں میں دونوں کے مابین تجارت کا سالانہ حجم تقریباﹰ 20 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ قبل ازیں 2014ء میں اس تجارت کی سالانہ مالیت تقریباﹰ 52 بلین ڈالر رہی تھی مگر پھر ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور عالمی منڈیوں میں تیل کی بہت کم ہو جانے والی قیمتوں کے باعث یہ حجم کم ہو گیا تھا۔
ایران کے لیے اضافی اقتصادی مشکلاات اس وقت دوبارہ شروع ہوئی تھیں جب 2018ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والی جوہری ڈیل سے امریکا کے یک طرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔ تب ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف یہ تھا کہ ایران کے ساتھ اس ایٹمی معاہدے پر نئے سرے سے بات چیت ہونا چاہیے۔
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.