بدھ کے دن میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں فوجی بغاوت کے مخالف ہزاروں مظاہرین نے گاڑیوں کی مدد سے سڑکوں کو بلاک کر دیا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ شہر میں فوج کی نقل و حرکت کو محدود بنا دیا جائے۔ گزشتہ دنوں کے مقابلے میں ان مظاہرین کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے میانمار کے لیے نمائندہ خصوصی ٹام اینڈریو نے خبردار کیا ہے کہ ینگون میں فوجیوں کی تعیناتی اور نئے مظاہرے تشدد کی ایک سنگین لہر کا باعث بن سکتے ہیں۔
ٹاہم اینڈریو نے کہا، ”مجھے خوف ہے کہ بدھ کے دن میانمار میں تشدد کا کافی زیادہ امکان ہے۔ اس دن سے زیادہ، جب یکم فروری کو فوج نے غیر قانونی طور پر سول حکومت کا تختہ الٹا تھا۔‘‘
مقامی میڈیا میں ایسی غیر مصدقہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ ان مظاہرین نے ٹرکوں اور نجی گاڑیوں کی مدد سے چین اور میانمار کو ملانے والے اہم شاہراہوں کو بھی بلاک کر دیا ہے۔
یہ تازہ مظاہرے ایک ایسے وقت میں شروع ہوئے ہیں، جب ایسی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ فوج مقید جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف خفیہ طور پر مقدمہ شروع کر رہی ہے۔
جب یکم فروری کو ملکی فوج نے سوچی کی سول حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو سوچی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے پاس ایے واکی ٹاکیز تھے، جو رجسٹرڈ نہیں تھے۔
اقوام متحدہ، امریکا اور متعدد یورپی ممالک نے میانمار کی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت بحال کریں اور سوچی سمیت گرفتار کیے گئے دیگر حکومتی عہدیداروں کو رہا کریں ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
Source: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.