اسلام آباد کے جناح ایونیو کا اختتام یوں تو دارالحکومت کی سب سے اہم عمارت پارلیمنٹ ہاؤس پر ہوتا ہے مگر گزشتہ تین روز سے اس سڑک کے آخری پڑاؤ ڈی چوک کا نقشہ بدلا ہوا ہے۔
بند ٹریفک سگنل اور سڑک کے ساتھ لگی رکاوٹوں کو عبور کریں تو نظر خاکی رنگ کے ایک قالین کے ٹکڑے پر رکھی درجنوں تصاویر پر پڑتی ہے۔ یہ تصاویر، اُنہیں تھامے بیٹھی خواتین کے مطابق اُن کے اہل خانہ کی ہیں جو برسوں سے لاپتہ ہیں۔
‘وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز’ نامی تنظیم کے زیرِ انتظام یہ دھرنا پہلے ایک ہفتے تک اسلام آباد پریس کلب کے سامنے واقع ایک میدان میں جاری رہا۔ لیکن تین روز قبل مبینہ طور پر جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے بلوچستان سے آئے 30 سے زائد خاندانوں نے دھرنے کا رخ پریس کلب کے بجائے ڈی چوک کی جانب کیا۔
وائس آف امریکہ کی ٹیم وہاں پہنچی تو رات بسر کرنے کے لیے رکھے کمبل اور چادروں کے ڈھیر کے ساتھ وہاں تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اور دیگر احتجاج کرنے والوں کو اپنے نو ساتھیوں کی تلاش کرتے ہوئے پایا۔
جمعرات سے غائب نوجوانوں کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ان کا اِس وقت تک کچھ سراغ نہیں مل رہا۔
بعد ازاں دھرنے کے منتظمین نے جمعے کو تصدیق کی کہ جمعرات کو لاپتہ ہونے والے یہ تمام نو نوجوان جمعے کی سہ پہر اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں معمولی نوعیت کی پوچھ گچھ کے لئے بظاہر قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے.
پاکستان میں مبینہ طور پر جبری گمشدگی کے واقعات کے لئے الزامات کے سرے بظاہر ملک کے خفیہ اداروں، فوج یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جا ملتے ہیں۔ تاہم ان اداروں کی جانب سے ایسے الزامات کی عموما تردید کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان میں 2011 سے لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیشن کام کر رہا ہے اور حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کابینہ کی خصوصی کمیٹی بھی بنائی ہے جس کی سربراہی وزیرِ قانون فروخ نسیم کر رہے ہیں۔
گو کہ انسانی حقوق کے کئی عالمی ادارے ‘مسنگ پرسنز کمیشن’ کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ کمیشن کے اپنے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسنگ پرسنز کا یہ کمیشن دسمبر 2020 تک چار ہزار سے زائد کیسز نمٹا چکا ہے۔
انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری جبری طور پر لاپتا افراد کے حوالے سے بل لانے کا عندیہ ایک سال پہلے دے چکی ہیں اور چند روز قبل ہی انہوں نے اپنی وزارت کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جبری لاپتہ افراد کے حوالے سے قانون سازی پر کام جاری ہے۔
تاہم اب تک اس ضمن میں کوئی ایسی پیش رفت سامنے نہیں آئی، جس سے ڈی چوک میں بیٹھے مظاہرین کی تسلی ہو سکے۔
لاپتہ افراد کے دھرنے میں شریک ایک خاتون راج بی بی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ وہ اپنے دس سال سے لاپتہ بیٹے ذاکر بلوچ کی تلاش میں کوئٹہ سے یہاں آئی ہیں۔
کھلے آسمان تلے درجنوں خواتین دن رات کیسے گزار رہی ہیں؟ اس پر راج بی بی کا کہنا تھا کہ وہ زندگی میں کبھی تنہا گھر سے باہر نہیں نکلیں۔ لیکن بیٹے کے لاپتہ ہو جانے کے بعد اُنہیں گھر میں ذہنی اذیت گھیر لیتی ہے۔ اس لیے وہ ان مشکل حالات میں بھی اسلام آباد کے دھرنے میں بیٹھی ہیں۔
ہانی گل سے جب یہ پوچھا کہ حکومت سے اُنہیں آخر کیا جواب ملنے کی امید ہے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے مزید وقت نہیں دیا جا سکتا۔ وزیرِ اعظم خود دھرنے کے شرکا سے ملیں اور اُنہیں دوٹوک الفاظ میں بتائیں کہ ان کے پیارے کب گھروں کو لوٹیں گے۔
ہانی گل کا کہنا تھا کہ ان کے گھروں تک تو شاید ان کی آواز سننے کوئی نہیں آئے گا۔ اس لیے یہ سب اپنے پیاروں کو تلاش کرتے خود وزیرِ اعظم تک آگئے ہیں۔
جب ایک بڑی کالے رنگ کی فور ویلر گاڑی شرکا کے پاس آ کر رکی تو سبھی اس میں سوار جے یو آئی ایف کے سربراہ اور سینٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری کو ملنے آگے بڑھے۔ وہ بھی کئی دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرح شرکا سے اظہار یکجہتی کرنے ڈی چوک آئے تھے۔
راج بی بی کے الفاظ میں ’’ جو خواتین گھر سے کبھی اکیلی نہیں نکلتی تھیں، فروری کی سردی میں زمین پر اس امید کے ساتھ اسلام آباد میں بیٹھی ہیں کہ اُنہیں وزیرِ اعظم انصاف دلائیں گے‘
Courtesy: VOA URDU
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.