آزرمراد
اپنے جوان بیٹے کے خون بہاتی ہوئی لاش کے اوپر خدا سے فریاد کرنے والے ماں باپ کی تصویر کو دیکھ کر وسعت اللہ خان نے ایک بار کہا تھا کہ بلوچستان کو بھی اب اُس کی تصویر مل چکی ہے. دہائیوں سے خون میں لت پت پڑی ہوئیں لاشیں جو کہ کبھی کسی ویرانے میں پڑی ملتی ہیں تو کبھی کسی اجتماعی قبر میں دھنسی ہوئی پائی جاتی ہیں بلوچستان کو بہت پہلے اُس کی تصویر سے نواز چکے ہیں لیکن شاید وہ تصاویریں لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام ہو گئی تھیں اور دنیا کو ایک ایسی تصویر درکار تھی کہ جس میں بے بس ماں باپ اور ان کے آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے مایوس ہاتھ اور ان کے دامن میں پڑی ہوئی ان کے جوان بیٹے کی لاش کا ہونا ضروری تھا کہ جس سے شاید لوگوں کو اس ناختم ہونے والے ظلم کی کہانی اور زیادہ پرکشش لگتی اور وہ شاید کچھ سطریں لکھنے پر خود کو مجبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے اس لئے حیات کو غلطی سے مرنا پڑ گیا.
اپنی زندگی کا آدھا حصہ سڑکوں پر اپنے باپ کی تصویر کے ساتھ گزارنے والی لڑکی کہ جس کی عمر اور سوچ دونوں کو جس وقت ایک عدد گڑیا اور اس کی شادی پر مرکوز ہونا تھا باپ کی بازیابی کے لئے نعرے سننے اور مزاحمتیں دیکھنے میں گزری ہیں بلوچستان کو بہت پہلے ہی اُس کی تصویر مہیا کر چکی ہیں. سرد راتوں میں ٹھنڈی سڑکوں پر کبھی کسی بھوک ہڑتالی کیمپ کے باہر بیٹھی ہوئی وہ لڑکی آج بھی وہی تصویر ہاتھ میں لئے ہر اُس مزاحمت میں کھڑی نظر آتی ہے کہ جس سے اُس کو ذرہ برابر بھی امید ہے کہ اس سے وہ تصویر چھین کر اُس کا باپ اُسے واپس دے دیگی، وہ آج بھی ہر اُس مارچ کا حصہ بنتی ہے کہ جس میں اس جیسی کئی اور لڑکیاں ہاتھوں میں تصویریں اٹھائے کبھی اس شہر کا رخ کرتی ہیں تو کبھی اُس شہر کا اور یہ سوچتی ہیں کہ شاید زمینی فاصلہ کم کرنے سے ان کی آواز اُن بہرے کانوں تک پہنچ جائے گی جو کہ یہ اختیار رکھتے ہیں کہ ان کے پیارے ان کو واپس دے دیں. وہ جو سڑکوں پر اپنی زندگی گزارتی ہوئی بلوچستان کے لئے تصویریں اکھٹی کرنے میں مصروف ہے بلوچستان کو نجانے کتنی ایسی تصویریں دے چکی ہے جو کہ بلوچستان کی نمائندگی کرنے میں کافی ہیں لیکن دنیا کے لئے شاید بلوچستان کی یہ تصویریں ابھی کافی نہیں ہیں اور دنیا چاہتی ہے کہ ابھی کچھ اور سال وہ لڑکی یہ تصویر ہاتھوں میں اٹھائے سڑکوں پر گھومتی رہے اور کچھ اور تصویریں جمع کرتی رہے کہ جن میں سے شاید ایک ایسی ہوگی جو کہ اس دنیا کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو سکے گی.
اپنے جوان بیٹوں سے دور وہ مائیں کہ جن کی آنکھیں ملک بدر ہونے والے بیٹوں کے غم میں ہر رات روتی رہتی ہیں بلوچستان کو نجانے کب کا وہ تصور دے چکی ہیں کہ جس سے بلوچستان کے ظلم کی ترجمانی ہونی ہے. مگر شاید اُن کی کمزور ہوتی ہوئی آنکھوں میں بسی انتظار کی کشش اتنی زیادہ نہیں ہے کہ جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ اب بلوچستان کو اُس کی تصویر مل چکی ہے اور اب جو ظلم ہے وہ واضع ہوچکا ہے. اس لئے ابھی کچھ اور تکلیف ان ماؤں کو سہنا پڑے گا، ابھی ان کی آنکھیں آنسو بہاتے بہاتے کچھ اور کمزور ہوتی رہیں گی، ابھی ان کی عمر کا کچھ اور حصہ خدا کے حضور دعا مانگتے ہوئے گزرے گا اور ابھی ان کو کچھ اور اس امید میں زندہ رہنا پڑے گا کہ ایک دن وہ اپنے ان بیٹوں کو گلے لگا سکیں گی اور اُن کے پیشانیوں کو چھوم سکیں گی ابھی ان ماؤں کی طرف سے کچھ اور تصویروں کا آنا باقی ہے.
سیکڑوں میل کا فاصلہ طے کرتی ہوئی ایک ضعیف ماں کی ایک انجان سڑک پر اپنے بیٹے کو پھر سے دیکھنے کی خواہش میں بے ہوش ہوجانے کا واقعہ ایک بار پھر بلوچستان کو وہ تصویر دے چکا ہے کہ جس کی امید میں مفکر حضرات اور اہل قلم اس سرزمین پر ہونے والے ظلم کے خلاف کچھ لکھنے پر راضی ہو سکتے ہیں لیکن وہ نہیں لکھیں گے کیونکہ ان کو مزید درد کے ظاہر ہونے کی امید ہے. ان کو امید ہے کہ جب یہ ماں بلکل ٹوٹ جائے گی اور اُس کو سنھبالنے والے آس پاس کے لوگ بھی اُس ماں کو سنبھالتے سنبھالتے ٹوٹ جائیں گے تو شاید تب ان کو اس منظر سے اپنے مطلب کی وہ تصویر ملے گی کہ جو ان کو مجبور کر سکے گی کہ وہ کچھ لکھیں.
بلوچستان میں پھر ایک ماں کی بے ہوشی نے بلوچستان کو ایک نئی تصویر سے نوازا ہے اور کل پھر کوئی بیٹی اس سرزمین کو کسی نئی تصویر سے نوازے گی اور یہ تصویریں ان لاکھوں تصویروں میں شامل ہو جائیں گی کہ جن میں بلوچستان کی داستان محفوظ ہو رہی ہے. یہ تصویریں اور ان میں اضافے کرنے والی وہ ساری تصاویر جن کا ابھی منظر عام پر آنا باقی ہے بلوچستان کو اس درد سے نواز چکی ہیں کہ جس کے چلتے شاید گونگی زبانیں کھل جائیں اور بہرے کان سننے لگیں اور دنیا کو بلوچستان سے مزید کسی اور تصویر کی امید نہ ہو.
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.