پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) کے چیئرمین کا انتخاب حکومتی اتحاد کے امیدوار صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب مرزا محمد آفریدی نے جیت لیا ہے۔
صادق سنجرانی نے اپنے مدِ مقابل حزبِ اختلاف کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی جب کہ مرزا محمد آفریدی نے عبد الغفور حیدری کو شکست دی۔
چیئرمین کے انتخاب کے لیے پریذائیڈنگ افسر سید مظفر حسین شاہ کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس کے دوران جمعے کو ووٹنگ کا عمل ہوا جس میں 98 ارکان نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
پریذائیڈنگ افسر نے اعلان کیا کہ صادق سنجرانی نے 48 اور یوسف رضا گیلانی نے 42 ووٹ حاصل کیے جب کہ آٹھ ووٹ مسترد ہوئے۔
پریذائیڈنگ افسر کے مطابق یوسف رضا گیلانی کو ڈالے گئے سات ووٹ مسترد ہوئے جنہیں بیلٹ پیپر پر موجود دائرے کے بجائے نام پر مہر لگانے پر مسترد کیا گیا جب کہ ایک ووٹ پر دونوں امیدواروں کے ناموں پر مہر لگائی گئی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے ووٹوں کو مسترد کیے جانے کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ جس مہر کی بات کی جا رہی ہے وہ خانے کے اندر ہی لگی ہے۔ تاہم پریذائیڈنگ افسر نے فاروق ایچ نائیک کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے صادق سنجرانی کی کامیابی کا اعلان کیا۔
بعد ازاں نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹنگ ہوئی۔
اس انتخاب میں حکومتی اتحاد کے امیدوار مرزا محمد آفریدی 54 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ جب کہ حزبِ اختلاف کے امیدوار مولانا عبد الغفور حیدری کو 44 ووٹ ملے۔
سینیٹ کے ارکان کی تعداد 100 ہے جن میں حکومتی اتحاد کے پاس 47 اور اپوزیشن اتحاد کے پاس 51 ووٹ تھے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ووٹ نہیں ڈالا جب کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحاق ڈار نے اب تک حلف نہیں اٹھایا اور وہ بیرونِ ملک موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کا ووٹ نہیں تھا۔
شکست کے بعد حکومتی امیدوار اور سابق وزیرِ اعظم سینیٹر یوسف رضا گیلانی سے جب سوال کیا گیا کہ آپ تو کہہ رہے تھے کہ مقتدر حلقے غیر جانب دار ہیں تو آپ کو شکست کیسے ہو گئی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا اس سے کیا تعلق ہے۔ جس کو ریٹرننگ افسر بنایا گیا تھا وہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعت کا رکن ہے۔
ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر شکست پر انہوں نے مزید کہا کہ جب چیئرمین کی نشست پر شکست ہو جائے تو ارکان دلبرداشتہ ہوں گے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ لیکن ایوان میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال سامنے آئی جب اپوزیشن کے ارکان نے پولنگ بوتھ اور ہال میں خفیہ کیمروں کی موجودگی کا انکشاف کیا۔
سینیٹ کے نئے منتخب ہونے والے 48 ارکان کی حلف برداری سے قبل مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اسمبلی ہال میں موجود پولنگ بوتھ میں لگے مبینہ کیمروں پر احتجاج کرتے ہوئے بوتھ کو توڑ دیا۔
حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر سینیٹ ہال میں کیمرے لگانے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے مجموعی طور پر 18 نئی نشستیں حاصل کی تھیں جب کہ پہلے سے سینیٹ میں موجود آٹھ نشستوں کے ساتھ پی ٹی آئی 26 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت ہے۔
حکومتی اتحادی جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی 12 نشستیں ہو گئی ہیں جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹ میں تین، مسلم لیگ (ق) اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی سینیٹ میں ایک ایک نشست ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو چار آزاد سینیٹرز کی حمایت بھی حاصل ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی 20 نشستوں کے ساتھ ایوانِ بالا کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر برقرار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹ میں 18 نشستیں ہو گئی ہیں اور وہ سینیٹ میں پہلے سے تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے تین نشستیں حاصل کی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی سینیٹ میں دو، دو نشستیں ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کو دو آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس طرح سینیٹ انتخاب 2021 کے بعد اپوزیشن اتحاد کے ارکان کی تعداد 52 ہو گئی ہے اور اسے حکومتی اتحاد پر چھ ارکان کی برتری حاصل ہے۔
Courtesy: VOA URDU