کابل:
افغانستان میں طالبان کے بانیوں میں سے ایک اور اس کی سابقہ حکومت کے دوران ملک میں اسلامی قوانین کی سخت تشریح نافذ کرنے والے اہم رہنما ملّا نورالدین ترابی کا کہنا ہے کہ ان کی تحریک ملک میں ایک بار پھر مجرموں کو سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سزاؤں کا آغاز کرے گی، تاہم اس مرتبہ یہ سزائیں شاید سر عام نہ دی جائیں۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ملّا ترابی نے ماضی میں طالبان کی جانب سے مجرموں کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں پر بعض حلقوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو بھی مسترد کردیا۔ یہ سزائیں بعض اوقات کسی اسٹیڈیم میں ہجوم کے سامنے دی جاتی تھیں۔
انہوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ملّا ترابی نے کہا،”اسٹیڈیم میں دی جانے والی ان سزاوں کی سب نے نکتہ چینی کی لیکن ہم نے ان کے قوانین اور ان کے یہاں دی جانے والی سزاوں کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔
” انہوں نے مزید کہا،”کسی کو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے قوانین کیسے ہونے چاہئے۔ ہم اسلام پر عمل کریں گے اور قرآن کی ہدایات کی روشنی میں اپنے قوانین ترتیب دیں گے۔“
طالبان نے 15 اگست کو جب سے کابل پر کنٹرول حاصل کر کے ملک کی حکومت سنبھالی ہے، افغان عوام اور دنیا کی نگاہیں اس بات پر ہیں کہ آیا وہ 1990 کی دہائی کے اواخر میں اپنی سخت حکمرانی کے انداز کو دوبارہ اپنائیں گے یا نہیں۔ ملاّ ترابی کے خیالات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کے رہنما اب بھی کس طرح بنیاد پرستانہ اندازمیں سوچتے ہیں
Courtesy: DW
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.