نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شال زون کی جانب سے شہید صباء دشتیاری کی بارہویں برسی پر ایک لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت شال زون کے آرگنائزر نزر مری کر رہے تھے، مہمان خاص مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی ممبران سلمان بلوچ، اشفاق بلوچ اور غنی بلوچ تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے پارٹی ممبران کو صباء دشتیاری شہید کی زندگی پر لیکچر دیئے ۔
منظور بلوچ نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہمیں فخر ہے کہ نوجوان اپنے قوم کی ایک استاد کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جتنے بھی ہیروز ہیں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہے، کیا ہم صرف ان کو یاد کریں، ان کا دن منائیں، جس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی زندگی گزاری ہے، جس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جانیں دی ہیں وہ اہمیت کا حامل ہے؟ یا صرف ان کے بارے میں ہمارے جو سرسری معلومات ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں، یا اس کو باقاعدہ ایک فکر کے طور منضبط کرکے ہم سب لوگوں کے سامنے لائیں۔
اگر صباء دشتیاری کی بات کی جائے تو وہ ایک نڈر اور بہادر آدمی تھے ۔سب کے منہ پہ بولتے تھے ۔ وہ اتنے بہادر تھے کہ بہت سے لوگوں نے اس کو کہا کہ تمہیں مار دیا جایے گا ۔تو صباء کہتا تھا کہ میرے مرنے سے بلوچ قوم ختم نہیں ہوگا۔ یہاں پر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ صباء زندہ ہوتا تو اور زیادہ کام کرتے۔ لیکن بڑے لوگوں کے اپنے مزاج اور اپنے اصول ہوتے ہیں ۔
وہ بہادر ہوتے ہیں اور دلیری سے فیصلے لیتے ہیں نہ کہ یہ کوئی جزباتی فیصلہ کرتے ہیں ،جس طرح نواب نوروز خان اور نواب اکبر خان بگٹی جو کہ اپنے عمر کے آخری ایام میں تھے نہ کہ وہ جزباتی تھے کیونکہ اس عمر میں کوئی جزباتی نہیں شعوری فیصلہ کرتے ہیں۔
Discover more from Balochistan Affairs
Subscribe to get the latest posts to your email.